ہندوستان میں‘ہرڈامیونٹی‘ تباہ کن قدم ثابت ہو گا: آئی سی ایم آر
’ہرڈ ایمونٹی‘ ‘یعنی اجتماعی بیماری کے خلاف مزاحمت کی ترقی کی جو تجاویز پیش کی جا رہی ہیں وہ تباہ کن قدم ثابت ہو سکتا ہے
نئی دہلی: ہندوستانی طبی تحقیقی کونسل (آئی سی ایم آر) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بلرام بھارگو نے کہا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک کے لئے ’ہرڈ امیونٹی‘ کے استعمال کو آزمانا تباہ کن قدم ثابت ہوگا اور اس طرح کی جو تجاویز پیش کئ جا رہی ہیں ان سے کورونا کو شکست دینے میں کوئی مدد نہیں ملے گی کیونکہ کئی ترقی یافتہ ملک اس کا نتیجہ بھگت چکے ہیں۔
ڈاکٹر بھارگو نے جمعرات کو یو این آئی کو بتایا کہ ہمارے ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے، آبادی کی کثافت بھی زیادہ ہے اور کچھ ایجنسیوں نے یہاں ’ہرڈ ایمونٹی‘ 'یعنی اجتماعی بیماری کے خلاف مزاحمت کی ترقی کی جو تجاویز پیش کئ ہیں وہ تباہ کن قدم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے لاکھوں کی موت ہو سکتی ہے جسے ملک کسی بھی حالت میں قبول نہیں کر سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے استعمال کے لئے ملک کی کم از کم 60 فیصد آبادی میں اس وائرس کے انفیکشن کو پھیلنے کی اجازت دی جاتی ہے یعنی لوگوں کو کسی طرح کی احتیاط نہیں برتنے کے بجائے ان سے پہلے کی طرح رہنے کو کہا جاتا ہے۔ اس کا اصل بنیاد ہے کہ لوگ زیادہ ملیں گے تو ان میں وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے ہوگا اور جب وہ متاثرہوں گے تو جسم اس وائرس کے خلاف مزاحمت حاصل کر لے گا یعنی ان کا دفاع یعنی اینٹی باڈی بن جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس طرح کا استعمال ملک کے لوگوں کے ساتھ کسی بھی قیمت پر نہیں کیا جا سکتا ہے یعنی ہم انہیں جان بوجھ کر وائرس کی زد میں آنے کا موقع دیں گے اور پھر یہ دیکھیں گے کہ ان کے جسم میں اینٹی باڈی بنے ہیں یا نہیں لیکن کئی بار صورت حال اس کے برعکس ہو سکتی ہے اور دنیا کے کئی ممالک نے اس طرح کے استعمال کے لیے آزمایا تھا اور لوگوں نے کسی طرح کی کوئی احتیاط نہیں برتی، سماجی فاصلے پر عمل نہیں کیا اور ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں اور انہی ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں کی موت ہو چکی ہے۔
غور طلب ہے کہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کورونا وائرس کو محدود طور پر پھیلنے کا موقع دیا جائے تو اس سے سماجی سطح پر کووڈ -19 کو لے کر ایک بیماری کے خلاف مزاحمت تیار ہوگی۔ برطانیہ، امریکہ، اٹلی، سویڈن اور دیگر یورپی ممالک نے شروع میں اس طرح کے استعمال کے لیے آزمایا تھا اور اس کے نتیجے میں وہاں کتنی اموات ہوئی ہیں نتیجہ سب جانتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔