ابن کنول کی وفات اردو فکشن نگاری کا بڑا نقصان... جمال عباس فہمی

ابن کنول شاعر تو نہیں تھے لیکن بلا کا شعری ذوق رکھتے تھے۔ 'انتخاب سخن'، 'منتخب نظمیں'، 'منتخب غزلیات' اور 'نظیر اکبر آبادی کی منتخب شاعری' پر ان کی کتابیں ان کی سخن فہمی اور نکتہ رسی کا ثبوت ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پروفیسر ابن کنول</p></div>

پروفیسر ابن کنول

user

جمال عباس فہمی

سال 2023 اردو فکشن نگاری کے لئے نیک فال لے کر نہیں آیا ہے۔ اردو فکشن کو اس برس میں اب تک دو بڑے صدموں سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ پہلا صدمہ7 جنوری کو نعیم کوثر کی رحلت سے لگا اور 11 فروری2023 کو ابن کنول اردو دنیا کو داغ مفارقت دے گئے۔ 10 جنوری کو پاکستان میں امجد اسلام امجد کی موت بھی اردو شاعری اور ڈرامہ نگاری کے حوالے سے بڑا نقصان ہے۔ لیکن ہندوستان کے ادبی منظر نامہ کے تعلق سے اگر دیکھا جائے تو ابن کنول کا اس دنیا سے جانا زیادہ بڑا جھٹکا ہے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سینئر پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے چند ماہ بعد ہی ابن کنول ادب کی تخلیق کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہوگئے۔ ابن کنول اپنے قلمی نام کی طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی منفرد تھے۔ وہ اردو دنیا میں افسانہ نگار، خاکہ نگار، محقق، اور مرتب کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے تنقید نگار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ ایک فرزند اور چار بیٹیوں کے ساتھ ساتھ 28 کتابیں بھی ہیں۔

 ابن کنول کے ادبی کارناموں پر گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 15 اکتوبر1957 کو ضلع سنبھل کے شہر بہجوئی میں پیدا ہونے والے ناصر محمود کمال کے ابن کنول بننے کی وجہ ان کے والد کا تخلص ہے۔ ان کے والد قاضی شمس الحسن ایک معتبر شاعر تھے اور کنول ڈبائیوی کے طور پر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے تھے۔ اسی مناسبت سے ناصر محمود کمال نے ادبی اور قلمی نام ابن کنول اختیارکیا۔ ابن کنول کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے پردادا قاضی ادہم علی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ ان کے دادا قاضی شریعت اللہ اپنے دور کے قابل وکیل تھے۔ خود ابن کنول کے والد کنول ڈبائیوی کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ ان کی شاعری حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ ابن کنول نے اپنے والد کی تمام شعری تخلیقات کو یکجا کرکے 'مضراب' کے عنوان سے ترتیب دیا۔


ابن کنول کے تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز علی گڑھ سے ہوا۔ جہاں انہوں نے چھٹی کلاس سے لے کر ایم اے تک کی تعلیم حاصل کی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ علی گڑھ میں انہیں اردو ادب کی قد آور ہستیوں سے کسب فیض کا موقع ملا جس نے ان کے ادبی ذوق کو صیقل کیا۔ جن ادبی ہستیوں کی صحبت ابن کنول کو میسر رہی ان میں پروفیسر قاضی عبدالستار، ڈاکٹر منظر عباس، پروفیسر شہر یار، پروفیسر نور الحسن نقوی، پروفیسر نعیم احمد اور ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی شامل ہیں۔ 1978 میں ایم اے کرنے کے بعد وہ دہلی چلے آئے اور وہاں سے انہوں نے ایم فل کیا۔ انہوں نے اپنی علمی، ادبی اور قلمی سرگرمیوں کا مرکز دہلی کو بنایا۔ وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے کئی بار سربراہ رہے۔ ان کی نگرانی میں درجنوں اردو اسکالرز ڈاکٹر بن گئے۔ انہوں نے قلمی سرگرمی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ انہوں نے عام لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو مرکز میں رکھتے ہوئے افسانے لکھے۔

معروف فکشن نگار اسلم جمشید پوری کا ابن کنول کے اسلوب اور طرز نگارش کے بارے میں کہنا ہے کہ ''افسانہ نگاری میں وہ 1970 کے بعد کے اکیلے ایسے افسانہ نگار ہیں، جنہوں نے انتظار حسین کے اسلوب میں افسانے لکھے۔ داستانوی اسلوب کو آگے بڑھانے کا کام ابن کنول نے کیا۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ان کے اسلوب اور انوکھے پن کے ثبوت کے لیے کافی ہیں''۔


ڈاکٹر سید عینین علی حق نے اپنی کتاب ''لہو لہان اردو افسانہ'' میں ابن کنول کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا ہے۔ عینین علی حق کے مطابق ''ابن کنول کے افسانوں میں عوام الناس کا وہ کرب ملتا ہے جس سے معاشرہ متاثر ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات جیسے مسائل پر انہوں نے کئی افسانے قلم بند کئے ہیں۔ ابن کنول کے یہاں جدیدیت کا غلبہ رہا ہے اور وہ آج بھی اس سے نکل نہیں سکے ہیں۔''

گجرات کے فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں لکھے ان کے افسانے 'خانہ بدوش' کا ایک اقتباس پیش ہے۔ جو زبان و بیان پر ان کی دسترس، لفظوں کی بر محل نشست و برخاست کا بہرین نمونہ ہے۔ ''پولیس کی گاڑی نے انھیں ایک کیمپ میں اتار دیا۔ اسے منیٰ کے خیمے یاد آئے، عرفات اور مزدلفہ کے بے سایہ میدان اس کی نظروں میں گھوم گئے لیکن منظر بدلا ہوا تھا، چاروں طرف آہ و بکا، بے سروسامانی، برہنہ پا، برہنہ سرخواتین کا ہجوم، بے کفن لاشیں، اس نے محسوس کیا کہ اب وہ ابرہہ کے نرغے میں ہے۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی۔ ابابیلوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، اس لئے کہ وہ اب تین سو تیرہ میں سے نہیں تھا۔''


ابن کنول کے اکثر افسانوں میں اسلامی تلمیحات کا خوبصورت استعمال نظر آتا ہے، ان کے افسانوں کے تین مجموعے 'بند راستے' پچاس افسانے' اور 'تیسری دنیا کے لوگ' شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کی عظیم کتاب 'باغ و بہار' کے مصنف میر امن دہلوی کا، مونو گراف بھی لکھا۔ میر تقی میر کی فارسی تخلیق 'بوستان خیال' کے تناظر میں ابن کنول کی ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے جس میں ' 'بوستان خیال' کے اندر پائی جانے والی ہندوستانی تہذیب، معاشرتی حالات، اخلاقی اقدار، اعتقادات، رسم و رواج اور فنون لطیفہ کے تناظر میں داستان کو جانچنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ابن کنول شاعر تو نہیں تھے لیکن بلا کا شعری ذوق رکھتے تھے۔ 'انتخاب سخن'، 'منتخب نظمیں'، 'منتخب غزلیات' اور 'نظیر اکبر آبادی کی منتخب شاعری' پر ان کی کتابیں ان کی سخن فہمی اور نکتہ رسی کا ثبوت ہیں۔ 'منتخب غزلیات' کتاب میں انہوں نے میر خسرو سے لے کر ناصر کاظمی تک کے اردو شاعری کے سفر کا جائزہ لیا ہے۔ 'تنقیدی اظہار' 'تنقید و تحسین'، 'داستان سے ناول تک' اور 'اردو افسانہ' جیسی تنقدی کتابیں ان کی ناقدانہ بصیرت اور تنقیدی حس کو ظاہر کرتی پیں۔ 'چار کھونٹ' اور 'بحر تجلیات' ان کے تحریر کردہ سفر نامے ہیں۔ ان سفر ناموں کا انداز بیان اتنا دلکش ہے کہ قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس سفر کا حصہ ہے۔ ابن کنول ایک ماہر ترتیب کار بھی تھے۔ انہوں نے 'اصناف پارینہ'، 'بساط زیست' اور اپنے والد کنول ڈبائیوی کی تحریر کردہ کتاب 'اردو زبان اور اس کا نام' کو مرتب کیا۔ انہوں نے خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری کی راہ میں بھی اپنے نقش قدم ثبت کئے۔ ابن کنول نے شارب ردولوی کا جو خاکہ لکھا وہ لاجواب ہے۔ اس خاکہ کے ذریعے انہوں نے اردو ادب میں نقاد کی افادیت اور اہمیت بھی بتا دی اور شارب ردولوی کے ادبی کارنامہ کی پذیرائی بھی کردی۔ اسی خاکے کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے اور ابن کنول کے اسلوب کا مزہ لیجئے۔


''اگر نقاد نہ ہوں تو کوئی طالب علم کسی امتحان میں پاس نہیں ہوسکتا۔ ولی، میر، غالب اور اقبال کو تو چھوڑیے ناصر کاظمی جیسے سہل ممتنع کے شاعر کو بھی سمجھنے کے لئے نقاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عہد حاضر میں ولی کے کلام کو تو خود دکن کے لوگ نہیں سمجھ پاتے۔ بھلا ہو ڈاکٹر شارب ردولوی کا انہوں نے ولی اور ان کی شاعری پر اتنا تفصیل سے لکھ دیا کہ طالب علموں کو امتحان کے لئے ولی کا کلام پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی''۔

 ابن کنول کی خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری کی عمر ان کی افسانہ نگاری، تحقیق و ترتیب کاری اور تنقید سے بہت کم ہے لیکن انہوں نے تین چار برسوں کے اندر ہی خاکہ نگاری کے میدان میں اپنے طرز تحریر کا لوہا منوا لیا۔

ابن کنول کا ایک تاریخی ادبی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق اور تلاش کے بعد یہ ثابت کیا کہ اردو کا پہلا ناول ہریانہ کے ادیب منشی گمان لعل کا ناول 'ریاض دلربا' ہے۔ ابن کنول کی تحقیق سے پہلے تک مولوی نذیر احمد کی تخلیق 'مرات العروس' کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا جاتا تھا۔ ابن کنول نے اسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی تھی۔ ابن کنول کی ادبی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا گیا۔ انہیں متعدد انعامات و اعزازات سے نوازہ گیا۔ بہترین فکشن نگاری کے لئے انہیں 'سر سید ملینیم ایوارڈ' سے نوازہ گیا۔ یو پی، بہار دہلی اور مغربی بنگال کی اردو اکادمیوں نے ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے اعزازات سے نوازہ۔ ابن کنول کو غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی نے 2022 کے غالب ایوارڈ کا مستحق قرار دیا۔ ابن کنول کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے تحریر کردہ کئی افسانوں کا عربی اور روسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ افسوس ہے کہ ابن کنول کے وجود سے اردو ادب کی دنیا خالی ہو چکی ہے لیکن وہ اپنے تحریر کردہ افسانوں، خاکوں، سفر ناموں اور تنقیدی کتابوں کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔