میں روپوش نہیں کوارنٹائن میں تھا، میڈیا بے بنیاد خبریں چلا رہی تھی: مولانا سعد
مولانا سعد کا کہنا ہے کہ نظام الدین مرکز میں کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا۔ تبلیغی جماعت پر لگائے جا رہے سبھی الزامات بھی بے بنیاد ہیں اور یہ بھی غلط ہے کہ میں جانچ میں پولس کا تعاون نہیں کر رہا۔
تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد گزشتہ کچھ دنوں سے سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں، اور اس کی وجہ ہے مرکز میں تبلیغی جماعت کا جلسہ اور اس کے بعد وہاں پھنسے ہوئے کچھ لوگوں میں کورونا پازیٹو کی تشخیص۔ اس کے بعد مولانا سعد کے اوپر کئی الزامات عائد کیے گئے اور ان کے خلاف میڈیا میں زوردار طریقے سے آوازیں بھی اٹھائی گئیں۔ کئی ٹی وی چینل پر تبلیغی جماعت کے خلاف غلط خبریں چلانے اور ملک کا ماحول خراب کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کیس بھی کیا گیا ہے۔ اس درمیان مولانا سعد کا ایک انٹرویو ہندی نیوز پورٹل 'ہندوستان' پر شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے خود پر لگے کئی الزامات پر وضاحت پیش کی ہے اور میڈیا کے کردار کے بارے میں بھی کچھ اہم باتیں سامنے رکھی ہیں۔
تبلیغی جماعت کے اجتماع کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا سعد نے واضح لفظوں میں کہا کہ "سب سے پہلے نظام الدین مرکز میں منعقد مذہبی پروگرام اور عام سرگرمیوں والے اجتماع کے فرق کو سمجھا جانا چاہیے۔ اجتماع عام طور پر ایک بڑا جلسہ ہوتا ہے جو کھلی جگہوں پر منعقد کیا جاتا ہے اور اس کے لیے متعلقہ افسروں سے اجازت لی جاتی ہے۔ لیکن مرکز نظام الدین بنیادی طور پر ایک مسجد ہے جس کا نام 'بنگلے والی مسجد' ہے۔ یہاں سالوں بھر عام مذہبی تقریر ہوتی رہتی ہیں۔ مسجد ہونے کے ناطے مجھے نہیں لگتا کہ عمارت کے اندر مذہبی تقریر کی اجازت کسی سے لینے کی ضرورت ہے۔"
نظام الدین مرکز معاملہ میں چاروں طرف سے تنقید کا سامنا کر رہے مولانا سعد نے پولس جانچ میں مدد نہ کیے جانے کے الزامات پر حیرانی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ "یہ پوری طرح سے غلط ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہ یقینی بنایا ہے کہ افسروں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا جائے۔ یہ ہماری 100 سالہ تاریخ رہی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔" مولانا سعد نے مزید کہا کہ "اب تک دہلی پولس سے جو بھی نوٹس موصول ہوئے ہیں، اس کا مناسب طریقے سے جواب دیا گیا ہے۔ تعاون نہ کرنے کی بات بے بنیاد ہے۔"
نظام الدین مرکز معاملہ سامنے آنے کے بعد فرار ہونے اور چھپ جانے جیسے الزامات پر بھی مولانا سعد نے حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں کہیں روپوش نہیں تھا بلکہ سیلف کوارنٹائن میں تھا۔ 'ہندوستان' میں شائع انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ "ڈاکٹروں کی صلاح کے مطابق میں سیلف کوارنٹائن تھا اور پولس اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے۔ پولس کو میرے ٹھکانے کے بارے میں بھی اچھی طرح پتہ ہے۔"
تبلیغی جماعت کو مبینہ طور پر ملنے والے غیر ملکی فنڈ اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ ان کے خلاف معاملہ درج کیے جانے پر جب سوال کیا گیا تو مولانا سعد نے کہا کہ "یہ پوری طرح سے بے بنیاد اور غلط ہے۔ ہمیں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔ ایسے سبھی الزامات میڈیا میں ہی چل رہے ہیں۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ مرکز میں کبھی کوئی غیر قانونی سرگرمی نہیں ہوئی ہے۔"
ہندوستان میں کورونا وائرس کے بڑھتے اثرات کے درمیان تبلیغی جماعت کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جانے پر مولانا سعد نے ناراضگی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ "یہ افسوسناک ہے کہ کچھ اراکین میں کورونا پازیٹو پایا گیا ہے، لیکن تبلیغی جماعت کے بیشتر اراکین کا ٹیسٹ ریزلٹ نگیٹو آیا ہے۔ کیا ایسی صورت میں مرکز کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ آپ کو یہ سوال خود سے بھی پوچھنا چاہیے کہ ہندوستان میں کووڈ-19 کا پہلا معاملہ کب درج کیا گیا تھا اور کیا کارروائی کی گئی؟" مولانا سعد نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ "فروری کے آخر میں اور پورے مارچ کے دوران دیگر کئی مقامات پر بہت بڑے اجلاس ہوئے، کیا انھیں بیماری کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر تبلیغی جماعت کو ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Apr 2020, 8:00 PM