آسنسول— بیٹے کے قتل کا بدلہ نہیں چاہتا، ایسا کیا تو شہر چھوڑ دوں گا: امام مسجد

مغربی بنگال کے آسنسول میں ایک مسجد کے امام امداد الرشیدی کا کہنا ہے کہ ایک بیٹے کی موت کی تکلیف میں برداشت کر رہا ہوں اور نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا باپ بھی یہ تکلیف برداشت کرے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

25 مارچ کو رام نومی کے جلوس کے دوران ایک شخص کا قتل ہونے کے بعد مغربی بنگال میں جو تشدد شروع ہوا تھا وہ ہنوز جاری ہے۔ اس تشدد میں اب تک چار لوگوں کا قتل ہو چکا ہے اور آخری قتل 16 سالہ نوجوان کا ہوا جو آسنسول کی نورانی مسجد کے امام مولانا امدادالرشیدی کا بیٹا تھا۔ اس قتل کے بعد مغربی بنگال کے آسنسول میں اقلیتی طبقہ میں غم اور غصے کا ماحول ہے۔ لیکن ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ ریاست کی فضا میں پھیلائی گئی زہر کو ختم کرنے کے لیے امام امدادالرشیدی نے ناراض مسلمانوں کی بھیڑ کو خطاب کرتے ہوئے بیٹے کے قتل کا بدلہ نہ لینے اور امن و امان بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”بدلے کی بات کی تو وہ مسجد اور شہر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔“

نورانی مسجد کے امام امدادالرشیدی نے یہ بیان اپنے بیٹے صبغۃ اللہ رشیدی کی نماز جنازہ کے بعد اس میں شریک ہوئے ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ جب امام لوگوں سے مخاطب تھے تو سبھی کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے اور انھیں تلقین کی جا رہی تھی کہ وہ امن قائم کریں اور جذبات میں آکر کسی دوسرے کے بیٹے کا قتل نہ کریں۔ امام صاحب نے مزید کہا کہ ”اللہ نے میرے بیٹے کی قسمت میں جتنی زندگی لکھی تھی، اس نے جی لی۔ اب اس بات کو یقنی بنایا جائے کہ کوئی اور بیٹا نہ قتل کیا جائے۔ اگر آپ میرے بیٹے سے اور مجھ سے محبت کرتے ہیں تو تشدد کی طرف مائل نہ ہوں، امن قائم کریں۔“ صبغۃ اللہ رشیدی کی نماز جنازہ کے بعد سبھی لوگ نم آنکھوں کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئے۔

امام کے بیٹے صبغۃ اللہ راشدی نے چند دنوں قبل دسویں بورڈ کا امتحان دیا تھا۔ وہ منگل کے دن سے لاپتہ ہوگیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ فسادیوں کی بھیڑ نے اسے اغواکیا تھا۔ بدھ کی رات اس کی لاش برآمد ہوئی۔ جمعرات کو لاش کی شناخت ہوئی کہ یہ مسجد کے امام مولانا امداداللہ کے بیٹے صبغۃ اللہ کی لاش ہے۔ اس کے بعد سے ہی آسنسول کے مسلم محلوں میں کشیدگی تھی۔ یہ ناراضگی بڑے فساد میں تبدیل ہوسکتی تھی، لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امام صاحب نے بروقت مداخلت کی اور آگے بڑھ کر عوام سے امن کی اپیل کرکے ان کے غصہ کو ٹھنڈا کیا اورنئی مثال پیش کی۔

اپنے معصوم بیٹے کے قتل سے غمزدہ اور مغربی بنگال کے بگڑتے صورت حال سے پریشان امام امدادالرشیدی کہتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی اور کا قتل ہو اور کوئی دوسرا باپ بھی اپنے بیٹے سے محروم ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ میرے بیٹے کا قتل ہوا، میں بہت تکلیف میں ہوں۔ ایک بیٹے کی موت سے مجھے کیا تکلیف ہوئی ہے، اس کا مجھے اندازہ ہے اس لیے میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور باپ اس تکلیف کو برداشت کرے۔ قابل ذکر ہے کہ 16 سالہ مہلوک سبت اللہ رشیدی اس سال بورڈ کے امتحان کے وقت دکھائی دیا تھا اور اس کے بعد آسنسول کے ریل پار علاقہ میں برپا تشدد کے بعد لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس کی لاش بدھ کی دیر رات برآمد ہوئی جس کے بعد علاقے کے مسلمانوں میں غم و اندوہ پھیل گیا۔

ذرائع کے مطابق امام کے بیٹے کو فسادیوں نے اٹھا لیا تھا۔ اس کی لاش بدھ کی دیر رات برآمد ہوئی اور جمعرات 29 مارچ کو اس کی شناخت سبت اللہ رشیدی کے طور پر کی گئی۔ لاش کی حالت کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس کا پیٹ پیٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ اس پورے معاملے میں 48 سالہ امام امدادالرشیدی نے ایک انگریزی اخبار سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ”جب وہ باہر نکلا تو وہاں تشدد برپا تھا۔ شرپسندوں نے اسے اٹھا لیا۔“ وہ مزید کہتے ہیں کہ ”سبت اللہ کے لاپتہ ہونے کی اطلاع میرے بڑے بیٹے نے پولس کو اس کی اطلاع دی تھی لیکن پولس اسٹیشن میں اسے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔ بعد میں بتایا گیا کہ پولس نے ایک لاش برآمد کی ہے جس کی شناخت اگلے دن صبح کو کی گئی۔“

واضح رہے کہ بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی تنظیموں کے ذریعہ رام نومی کے موقع پر نکالے گئے مسلح جلوس کے دوران اقلیتی طبقہ کو مشتعل کرنے کی کوششوں کے درمیان پولس انتظامیہ پر بھی حملے کیے گئے تھے جس میں کئی پولس اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس کے بعد مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا تھا اور پولس انتظامیہ بھی کافی سخت ہو گئی تھی لیکن بابل سپریو اور لاکٹ چٹرجی جیسی بی جے پی لیڈروں نے اشتعال انگیز بیان دے کر ماحول میں زہر پھیلا دیا اور ہندوتوا ذہنیت کے لوگوں نے اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنایا۔ اس معاملے میں کئی بی جے پی لیڈران، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کارکنان کی گرفتاری بھی ہوئی ہے۔ بابل سپریو کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہو چکا ہے جو لگاتار اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Mar 2018, 10:20 AM