’میں انصاف کی خاطر کرسی چھوڑنے کو بھی تیار، لیکن انھیں...‘، ڈاکٹروں نے بات چیت سے کیا انکار تو ممتا ہوئیں خفا

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’میں عام لوگوں کے لیے انصاف کی خاطر کرسی چھوڑنے کو بھی تیار ہوں، لیکن انھیں انصاف نہیں چاہیے، انھیں صرف کرسی چاہیے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>ممتا بنرجی فائل فوٹو، یو این آئی</p></div>

ممتا بنرجی فائل فوٹو، یو این آئی

user

قومی آواز بیورو

مغربی بنگال کے کولکاتا میں پیش آئے زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل واقعہ پر ڈاکٹروں کی ناراضگی کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ آج ایک بار پھر مغربی بنگال حکومت کے ساتھ ڈاکٹروں کی میٹنگ نہیں ہو سکی۔ حکومت نے تیسری مرتبہ ڈاکٹروں کو بات چیت کے لیے مدعو کیا تھا اور کھلے دل سے اپنی بات رکھنے کو کہا تھا، لیکن وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نبنّا کے کانفرنس ہال میں 2 گھنٹے تک ڈاکٹروں کا انتظار ہی کرتی رہ گئیں۔ ڈاکٹروں کا نمائندہ وفد میٹنگ کے براہ راست نشریہ کو لے کر بضد تھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ میٹنگ ہی نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد ممتا بنرجی نے سخت الفاظ میں کہا کہ انصاف کی خاطر وہ کرسی چھوڑنے کے لیے بھی تیار ہیں، لیکن انھیں (مخالفین) انصاف نہیں بلکہ کرسی چاہیے۔

دراصل جمعرات کو ممتا حکومت نے خط لکھ کر ڈاکٹروں کو بات چیت کے لیے شام 5 بجے مدعو کیا تھا۔ اپنے خط میں حکومت نے میٹنگ میں وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی موجودگی سے متعلق ڈاکٹروں کے مطالبہ کو منظﷺر کر لیا تھا۔ لیکن میٹنگ کی لائیو اسٹریمنگ سے متعلق ان کی شرط کو خارج کر دیا اور مظاہرہ کر رہے 30 ڈاکٹروں کے نمائندہ وفد کی جگہ صرف 15 کو میٹنگ میں شامل ہونے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔


بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹروں نے بات چیت کی تجویز کو قبول کر لیا تھا اور نبنّا پہنچ بھی گئے تھے۔ چیف سکریٹری کے مطابق 15 کی جگہ 32 اراکین کا نمائندہ وفد میٹنگ کے لیے پہنچا تھا، جنھیں اجازت بھی دے دی گئی۔ ساتھ ہی میٹنگ ریکارڈ کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ لیکن ڈاکٹر لائیو اسٹریمنگ کو لے کر بضد ہو گئے اور کانفرنس ہال کے اندر نہیں گئے۔ ممتا بنرجی ہال میں خالی کرسیوں کے درمیان دو گھنٹے تک میٹنگ کے لیے ڈاکٹروں کا انتظار کرتی رہیں، پھر وہ وہاں سے نکل گئیں۔

اس معاملے میں ممتا بنرجی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ہم نے ڈاکٹروں کے ساتھ میٹنگ کے لیے دو گھنٹے تک انتظار کیا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا۔ ہم نے ان سے بات چیت کے لیے کھلے دماغ سے آنے کو کہا تھا۔ بات چیت ہونے پر ہی مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل ایک دیگر موقع پر میں نے بات چیت میں شامل ہونے کے لیے انتظار کیا تھا۔ کوئی بات نہیں، میں انھیں معاف کرتی ہوں، کیونکہ وہ بہت چھوٹے ہیں۔ ہمارے پاس میٹنگ کو ریکارڈ کرنے کا پورا انتظام تھا۔ سبھی چیزوں کو شفاف اور ظاہر کرنے کے لیے اور سپریم کورٹ کی اجازت کے ساتھ ریکارڈنگ شیئر کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔


وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ جب کوئی معاملہ زیر غور ہو تو ہم اس طرح کی باریک تفصیلات پر تبادلہ خیال نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمارے پاس کارروائی کو ریکارڈ کرنے کی سہولت تھی۔ میں نے طے کیا تھا کہ ہم مہلوک زیر تربیت خاتون ڈاکٹر اور سیتارام یچوری کی یاد میں ایک قرارداد پاس کریں گے جو آج ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم بھی انصاف چاہتے ہیں، لیکن معاملہ اب ہمارے پاس نہیں ہے، بلکہ سی بی آئی کے پاس ہے۔ ہم براہ راست نشریہ کے بارے میں کھلے دماغ سے سوچتے ہیں، لیکن زیر غور معاملہ ہونے کے سبب کچھ قانونی مجبوریاں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں عام لوگوں کے لیے انصاف کی خاطر کرسی چھوڑنے کو بھی تیار ہوں، لیکن انھیں انصاف نہیں چاہیے، انھیں صرف کرسی چاہیے۔ مجھے وزیر اعلیٰ کی کرسی نہیں چاہیے، بلکہ متاثرہ کے لیے انصاف چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔