نہرو کی موت اقلیتوں کے لیے ایک قیامت
میں 14 نومبر (جواہر لال نہرو کی 128ویں سالگرہ) کو اپنا کالم لکھنے بیٹھی ہوں تو کچھ پرانی باتوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں تاکہ پرانی یادوں پر میری گرفت مضبوط ہو۔ ایسی صورت میں جواہر لال نہرو سے متعلق بچپن کا ایک منظر میرے سامنے آتا ہے جب میں آبائی شہر شاہجہاں پور میں تھی اور کئی فیملی ممبران کے ساتھ کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میری دادی آمنہ رحمن نے ریڈیو کا سوئچ آن کیا۔ اس وقت جواہر لال نہرو کے انتقال کی خبر نشر ہو رہی تھی، وہ چیخیں اور بیٹھ کر رونے لگیں۔ وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھیں ’’پنڈت جی نہیں رہے! اب ہمارا کیا ہوگا! ہمارے لیے یہاں کون ہے... کون ہماری حفاظت کرے گا! ہم لوگوں کے لیے تباہی ہے... ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قیامت کا دن ہے!‘‘
میں اس وقت چھوٹی بچی تھی اور اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر ان کا پنڈت جواہر لال نہرو سے کیا تعلق ہے اور ان کی موت پر وہ رو کیوں رہی ہیں۔ آخر وہ اتر پردیش کے ایک معروف شہر میں رہائش پذیر تھیں جو کہ نئی دہلی سے کافی دور تھا، اور سیاست و سیاستدانوں سے بھی اس شہر کا کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔
لیکن جیسے جیسے وقت گزرا اور میرا شعور پختہ ہوا، دادی کے الفاظ اور جذبات کا مطلب سمجھ میں آنے لگا۔ میری دادی اس دور کے ہر شخص کی طرح اس بات کو جانتی تھیں کہ’پنڈت جی‘ (جواہر لال نہرو اکثر اسی نام سے پکارے جاتے تھے) اس ملک میں جمہوری اقدار، اقلیتوں کے اختیارات اور حقوق اور ہم آہنگی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ انھیں ایسے طبقہ کے محافظ کی شکل میں دیکھتی تھیں جو اقلیت ہے اور جس کا کوئی نمائندہ نہیں۔
یہاں یہ وضاحت کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اور مسلسل ملک کی بنیاد کمزور پڑتی گئی۔ ملک کے مسلمانوں کو فراموش کیا گیا اور ان کے خلاف ایک زہریلا پروپیگنڈا تیار کیا گیا جس کے تحت بہ آواز بلند انھیں ایک الگ خانہ میں دھکیل دیا گیا۔ آج جب میں بچپن کے آزاد ماحول کو یاد کر رہی ہوں تو مسلمانوں پر دوسرے نمبر کا شہری ہونے کا لیبل لگا ہوا دیکھ کر خوف محسوس کرتی ہوں۔ اس زمین پر مسلمان اکثریتی طبقہ کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے لیکن ماحول زہر آلود ہے۔ اکثر یہاں برسرعام کوئی بہانہ بنا کر مسلمانوں کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ تازہ بہانہ بیف یعنی گائے کے گوشت کو بنایا جا رہا ہے۔
ہاں، یہ درست ہے کہ جب نہرو وزیر اعظم تھے اس وقت بھی فساد ہوئے تھے لیکن اس چیز پر لوگوں کو یقین تھا کہ انصاف ملے گا۔ ان کے دور میں آج کی طرح نہیں تھا جب پٹاخوں کا کوئی پیکٹ کسی بدنصیب مسلمان سے پھٹ گیا تو اسے جیل میں پھینک دیا گیا اور اس پر دہشت گرد کا تمغہ لگا دیا۔ اگر اس نے اپنا جرم قبول کر لیا تو سب سے پہلے یہ برسرعام کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم ہے، اور اب تو ایک نیا طریقہ اختیار کیا جانے لگا ہے جس کے تحت ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے جیسے اس کا تعلق آئی ایس آئی ایس سے ہے۔
جب میں خود سے پوچھتی ہوں کہ غریب مسلمان اور غریب ہندو میں کیا فرق ہے، تو جواب ملتا ہے کہ دونوں بدقسمت اور محروم ہیں، بھوکے اور بے روزگار ہیں۔ صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ آج کے مسلمان خود کو انتہائی غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب سے آر ایس ایس-بی جے پی مرکز میں برسراقتدار آئی ہے اور مختلف ریاستوں میں بھی ان کی حکومت قائم ہوئی ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھا ہے۔ یہ ماحول برسرعام قتل اور ناانصافی کے بڑھنے سے قائم ہوا ہے۔
میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ آپ حکومت کے سربراہ ہیں تو جمہوریت میں یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ آپ ہندو یا مسلم یا سکھ یا عیسائی ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ سرکاری مشنری کا رویہ فرقہ وارانہ نہ ہو، اس کے لیے انصاف کو مضبوط بنانا ہوگا، اس میں شفافیت لانی ہوگی۔ جب نہرو وزیر اعظم تھے تو تحفظ کا احساس عروج پر تھا کیونکہ وہ خود سیکولر تھے۔ اگر نہرو ہمارے درمیان موجود رہتے تو ناممکن تھا کہ بابری مسجد کو منہدم کیا جاتا۔ ان کی موجودگی میں گجرات میں تباہی و بربادی کا منظر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا اور نہ ہی آر ایس ایس پرچارک و مہا پرچارک اس ملک پر حکمرانی کرتے، اور نہ ہی کوئی موب لنچنگ یا فرقہ وارانہ قتل ہوتا۔
جواہر لال نہرو حقیقی معنوں میں قابل سیاستداں تھے۔ کئی سال پہلے جب عراق کا وجود تھا اور یہ امریکہ کے ذریعہ تباہ نہیں کیا گیا تھا، اس وقت میں نے ہندوستان میں عراق سفیر سے انٹرویو کیا تھا۔ اس وقت مجھے بتایا گیا تھا کہ 1950 کی دہائی میں نہرو نے نئی دہلی کے پرتھوی راج روڈ واقع ایک بنگلہ ہندوستان میں پہلے عراقی سفیر کو بطور تحفہ دیا تھا۔ آج بھی یہ بنگلہ موجود ہے، حالانکہ امریکی فوجیوں کے ذریعہ دراندازی کر کے عراق کو برباد کر دیا گیا ہے اور یہ ملک کھنڈر بن چکا ہے۔
نہرو کی خارجہ پالیسی اور ان کی سوچ کا ہی نتیجہ تھا کہ دنیائے عرب کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف تھا اور یہ ایک ڈپلومیٹک عمل کہا جا سکتا ہے۔ ان کا اسرائیل مخالف نظریہ بھی بالکل واضح تھا اور وہ فلسطین کے حقوق کی حمایت میں کھڑے نظر آتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک اور مغربی ایشیا کے ساتھ ہندوستان کا مضبوط اتحاد تھا۔ افسوس! آج نہرو نہیں ہیں اور نہ ہی عرب ممالک سے اس طرح کے تعلقات ہیں۔ عرب ممالک بھی اب صرف نام کے عرب ممالک رہ گئے ہیں۔ جھوٹ پر مبنی مغربی پالیسیوں اور امریکی بمباری و دراندازی نے سب کچھ تباہ و برباد کر دیا ہے۔
جواہر لال نہرو کا سنہرا دور اب تاریخ بن کر رہ گیا ہے اور آج کے ہندوستانی سیاستدانوں نے اسرائیل و امریکہ جیسی فاشسٹ طاقتوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔ یہ ایسی فاشسٹ طاقتیں ہیں جو فلسطین کو نیست و نابود کرنے کی بات کرتے ہیں!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Nov 2017, 10:39 PM