ہم اڈانی کے ہیں کون: اس مرتبہ کانگریس نے اڈانی گروپ کے فرضی اداروں اور اس کی ناجائز سرگرمیوں پر اٹھائے سوال
کانگریس پارٹی وزیر اعظم نریندر مودی سے ہر دن اڈانی معاملے کو لے کر تین سوالات پوچھ رہی ہے، اس سلسلہ میں پارٹی جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے آج سولہویں قسط کے سوالات جاری کیے۔
کانگریس پارٹی وزیر اعظم نریندر مودی سے ہر دن اڈانی معاملے کو لے کر تین سوالات پوچھ رہی ہے۔ ’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ نام سے یہ سلسلہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے اور آج پارٹی جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سولہویں قسط کے سوالات جاری کیے۔ انھوں نے جاری بیان میں لکھا کہ ’’محترم وزیر اعظم مودی، جیسا کہ آپ سے وعدہ تھا، ہم اڈانی کے ہیں کون (ایچ اے ایچ کے) سیریز میں آپ کے لیے آج کا تین سوالوں کا سولہواں سیٹ پیش ہے۔ سوالوں کا یہ سیٹ اڈانی گروپ کی ایک عالمی بدعنوانی نظام میں ممکنہ شراکت داری سے متعلق ہیں، جس میں گہرے سیاسی تعلقات رکھنے والی دیگر کمپنیاں شامل ہیں۔‘‘ بعد ازاں جئے رام رمیش نے تین سوالات رکھے جو اس طرح ہیں:
سوال نمبر 1:
جیسا کہ ہم نے اس سیریز کے اپنے 19 فروری 2023 کو پوچھے سوالوں کے سیٹ میں تذکرہ کیا تھا کہ اڈانی گروپ نے روس کے اس وی ٹی بی بینک کا استعمال کرتے ہوئے ’متعلقہ پارٹی لین دین‘ کیے ہیں، جو کئی سالوں سے بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ وی ٹی بی 14 اکتوبر 2016 کو 13 ارب امریکی ڈالر سے گجرات میں ایسار کی ملکیت والے بندرگاہ اور ریفائنری کی روسنیفٹ آئل خرید میں بھی دکھائی دیتا ہے اور یہ خبر کافی سرخیوں میں رہی کہ روسی صدر ولادمیر پوتن اور آپ نے اس سودے کو آخری شکل دینے میں ایک اہم کردار نبھایا تھا۔ حالانکہ ایک روسی تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ روسنیفٹ ایسار آئل کی قیمت کی کم از کم دوگنی ادائیگی کرنے پر متفق ہو گیا ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ 4 ستمبر 2015 اور 28 اکتوبر 2016 کے درمیان پبلک سیکٹر کی کمپنیوں او این جی سی، آئل انڈیا، انڈین آئل اور بھارت پیٹرو ریسورسز نے مل کر روسنیفٹ کی معاون کمپنی وینکورنیفٹ میں 4.23 ارب امریکی ڈالر کی قیمت پر اس کی 49.9 فیصد حصہ داری خریدی، جس میں وی ٹی بی کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔ وینکورنیفٹ میں لگاتار گرتے پروڈکشن اور ملکیت پر مینجمنٹ کے کنٹرول کی کمی کو دیکھتے ہوئے، روس کے سابق نائب وزیر توانائی ولادمیر میلوو نے کہا کہ ’’ہندوستانی کمپنیوں نے واضح طور سے وینکور کے شیئرس کے لیے زیادہ ادائیگی کی ہے۔‘‘
یہ ایک مشتبہ پیٹرن ہے جس میں پبلک سیکٹر کی یونٹس ایک تیل ملکیت کے لیے ایک روسی کمپنی کو قیمت سے زیادہ ادائیگی کرتی ہیں، جو بدلے میں ایک دیگر توانائی ملکیت کے لیے سیاسی طور سے جڑی پرائیویٹ ہندوستانی کمپنی کو قیمت سے زیادہ ادائیگی کرتی ہے۔ ایسار لین دین میں آپ کے براہ راست کردار سے کیا یہ سوال نہیں اٹھتا ہے کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے مالی امداد کے لیے ہندوستانی ٹیکس دہندگان کا پیسہ پرائیویٹ ہندوستانی کمپنیوں کی جیب میں منتقل کیا؟
سوال نمبر 2:
نیو لینا، سائپرس واقع ایک یونٹ ہے، جس کا 95 فیصد سرمایہ اڈانی گروپ کی کمپنیوں (420 ملین امریکی ڈالر تک) میں کیا گیا ہے۔ اس فنڈ کے ’آخری نفع حاصل کرنے والے مالک‘ مالیاتی سروس فرم ایمی کورپ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ایمی کورپ نے کم از کم سات اڈانی یونٹس قائم کیے ہیں، 17 غیر ملکی شیل کمپنیاں گوتم اڈانی کے بھائی ونود سے جڑی ہیں اور اڈانی گروپ کے اسٹاک میں ماریشس کے تین غیر ملکی سرمایہ کار ہیں۔ ایمی کورپ ’1 ایم ڈی بی‘ گھوٹالے میں شامل ہونے کے لیے بدنام ہے، جس میں ملیشیا کے سورین ویلتھ فنڈ ’1 ملیشیا ڈیولپمنٹ برہاڈ‘ سے 4.5 ارب امریکی ڈالر کی دولت سینئر سیاسی ہستیوں کے ذریعہ غبن کیا گیا تھا۔ اس گھوٹالے میں پھنسی ایمی کورپ اداروں میں سے ایک حال ہی تک نیو لینا میں ایک شیئر ہولڈر تھی۔ کیا اڈانی گروپ اور دیگر کمرشیل گھرانے ہندوستان میں سیاسی لیڈروں کے خزانے میں عوامی رقم کو ڈالنے کے لیے عالمی بدعنوانی نظام میں شامل ہیں؟
سوال نمبر 3:
نیو لینا ’اسٹاک پارکنگ‘ کا قصوروار معلوم ہوتا ہے، جس میں ایک تیسرا فریق ریگولیٹرس کے سامنے حقیقی مالک کی ملکیت یا کنٹرول کو چھپانے کے لیے شیئر اپنے پاس رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ وقت سے سیبی نے ان فرموں کو اپنے رڈار پر رکھا ہوا ہے، اس لیے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اڈانی گروپ سے جڑے فرضی اداروں کے ذریعہ اسٹاک پارکنگ سے متعلق ناجائز سرگرمیوں کی جانچ کی حالت کیا ہے؟ کیا ان اداروں کے گہرے عالمی تعلقات مجموعی جانچ کو رخنہ انداز کر رہے ہیں؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔