ہم اڈانی کے ہیں کون: شیل کمپنی اور منی لانڈرنگ میں اڈانی کنبہ کے ملوث ہونے کے اشارے، کیا تحفظ فراہم کرنا بند کریں گے؟
ہنڈن برگ رپورٹ کے انکشافات کے بعد سے کانگریس 'ہم اڈانی کے ہیں کون' سیریز کے تحت روزانہ پی ایم مودی سے اڈانی اور ان کی کمپنیوں کو لے کر سوال پوچھ رہی ہے، حالانکہ اب تک کسی بھی سوال کا جواب نہیں ملا ہے۔
کانگریس نے 'ہم اڈانی کے ہیں کون' سیریز کے تحت آج ایک بار پھر پی ایم مودی سے گوتم اڈانی پر تین سوال پوچھے ہیں۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوالوں کا نیا سیٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ "محترم وزیر اعظم مودی، وعدہ کے مطابق یہ ہے آپ کے لیے آج کے تین سوالوں کا سیٹ۔ ایچ اے ایچ کے (ہم اڈانی کے ہیں کون) سیریز کا یہ 27واں سیٹ ہے۔ یہ ضمنی سیریز ’دِکھ رہا ہے ونود‘ کا چوتھا سیٹ بھی ہے، جو گوتم اڈانی کے بڑے بھائی ونود اڈانی اور غیر شفاف مالیاتی لین دین میں شامل شیل کمپنیوں کے ان کے نیٹورک کے مرکزی کردار سے متعلق ہے۔" پھر جئے رام رمیش تین سوالات پوچھتے ہیں جو اس طرح ہیں…
سوال نمبر 1:
اڈانی گروپ نے بار بار ونود اڈانی سے متعلق سوالات کو نظر انداز کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ گروپ کے مینجمنٹ اور فیصلے لینے کے عمل میں شامل نہیں ہیں۔ پھر بھی ہر ہفتے تازہ انکشافات ہو رہے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک مضحکہ خیز دھوکہ ہے۔ 19 فروری 2023 کے ایچ اے ایچ کے سیٹ میں ہم نے 16 ستمبر 2022 کے اڈانی گروپ کے اعلان کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ’اسپیشل پرپس وہیکل اینڈیور ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ لمیٹڈ‘ کے ذریعہ اڈانی کنبہ نے امبوجا سیمنٹس لمیٹڈ اور اے سی سی لمیٹڈ پر قبضہ کامیابی کے ساتھ پورا کر لیا تھا۔ ہم نے سیبی کی فائلنگ کے بارے میں بھی بتایا تھا جس کے مطابق ایکوائرر کا اصلی فائدہ کنندہ مسٹر ونود شانتی لال اڈانی اور محترمہ رنجن بین ونود اڈانی کے پاس ہے۔ اگر ونود اڈانی کی اڈانی گروپ سے اتنی ہی دوری ہے تو اڈانی انٹرپرائزیز کے منتظم امبوجا سیمنٹس اور اے سی سی میں سینئر منیجر کیسے بن گئے؟ ہندوستانی کمپٹیشن کمیشن پرعزم انداز میں کیوں کہتا ہے کہ اینڈیور اڈانی گروپ کا حصہ ہے؟
سوال نمبر 2:
میڈیا رپورٹس کے مطابق شیل کمپنی ایکروپولس ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ ’ایکسنٹ ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ‘ کی مالک ہے، جس کے پاس بدلے میں اینڈیور کی ملکیت ہے۔ ماریشس میں واقع ایکروپولس اور ایکسنٹ دونوں کے ڈائریکٹر سبیر مترا ہیں جو اڈانی کنبہ میں دفتر کے چیف ہیں۔ ونود اڈانی ایکروپولس میں ڈائریکٹر ہیں، جس نے 21-2020 میں 7 بلین ڈالر (51400 کروڑ روپے) کی آمدنی اور منافع (صفر کے برابر خرچ ہونے کے نتیجہ میں) دکھایا لیکن 22-2021 میں صفر آمدنی اور 25980 ڈالر کا نقصان دکھایا۔ ان اہم کمپنیوں کی ملکیت والی ایک شیل کمپنی کی ایک سال میں 51400 کروڑ روپے اور اگلے سال میں صفر آمدنی کیسے ہو سکتی ہے؟ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی ایجنسیاں کیا کبھی جانچ کریں گی کہ یہ دولت کہاں سے آ رہا ہے اور کہا جا رہا ہے؟
سوال نمبر 3:
اینڈیور نے ہولڈرنگ انویسٹمنٹس پچھلے مالک سے خرید کر امبوجا سیمنٹس اور اے سی سی میں حصہ داری حاصل کی۔ ہولڈرنگ ابھی مترا کو ڈائریکٹر اور روجرس کیپٹل کارپوریٹ سروسز کو مینجمنٹ کمپنی بتاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے 28 فروری 2023 کے اپنے ایچ اے ایچ کے سیٹ میں بتایا تھا، روجرس کے ایک ڈائریکٹر جئے چند جنگری اڈانی انٹرپرائزیز (جس کا تب نام اڈانی ایکسپورٹ تھا) کے ایک سابق ڈائریکٹر ہیں جن کا تعلق اڈانی انٹرپرائزیز کے 20 ہزار کروڑ روپے کے فالو آن پبلک آفر میں اینکر انویسٹر کے طور پر سرمایہ کرنے والے 5 انویسٹمنٹ فنڈس سے بھی ہے۔ خبروں کے مطابق جنگری کے تعلقات بھگوڑے شیئر دلالوں کیتن پاریکھ اور دھرمیش دوشی کے ساتھ بھی ہیں۔ اینکر انویسٹر کے طور پر سرمایہ کاری کرنے والے ماریشس واقع چھٹے فنڈ ’دی گریٹ انٹرنیشنل ٹسکر فنڈ‘ میں ایسے ڈائریکٹر بھی ہیں جو دوسری کمپنوں میں ونود اڈانی اور سبیر مترا کے ساتھ شریک ڈائریکٹر ہیں۔ کیا یہ اڈانی منیجرس کی طویل مدت سے قائم نیٹورک کے منی لانڈرنگ اور راؤنڈ ٹرپنگ میں شامل ہونے کا اشارہ نہیں دیتا، جیسا کہ سرکاری اور نجی جانچ کرنے والوں نے الزام لگایا ہے؟ آپ کب اپنے متروں اور پیسہ دینے والوں کو تحفظ دینا بند کریں گے اور قانون کو اپنا کام کرنا دیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔