2019 میں بھارتیہ جنتا پارٹی پر بھاری پڑیں علاقائی پارٹیاں

اس سال لوک سبھا کے علاوہ سات ریاست کے اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جن میں علاقائی پارٹیوں نے اپنی موجودگی نمایاں طور پر درج کرائی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ملی بے مثال کامیابی اور اس کے بعد ریاستوں میں ایک کے بعد ایک اس جیت سے ملک میں دو جماعتی نظام قائم ہونے کے قیاس لگنے شروع ہو گئے تھے لیکن اس سال ہونے والے انتخابات میں علاقائی پارٹیوں نے دکھایا کہ ان کی موزونیت ختم نہیں ہوئی ہے اور وہ قومی پارٹیوں کو سخت ٹکر دینے کے قابل ہیں۔

اس سال لوک سبھا کے علاوہ سات ریاست کے اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جن میں علاقائی پارٹیوں نے اپنی موجودگی نمایاں طور پر درج کرائی۔ اپریل - مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودي کی مقبولیت کے بل پر بی جے پی گزشتہ انتخابات سے زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی، اس کی نشستوں کی تعداد 300 سے اوپر نکل گئی۔ مودی لہر کے باوجود اس انتخابات میں بیجو جنتا دل، ترنمول کانگریس، دراوڑ منیتر كشگم (ڈی ایم کے)، وائی ایس آر کانگریس پارٹی، تلنگانہ راشٹر سمیتی جیسی علاقائی پارٹیوں نے بی جے پی کو سخت ٹکر دی۔ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو میں تو بی جے پی کھاتہ بھی نہیں کھول پائی۔ تمل ناڈو کی 39 لوک سبھا سیٹوں میں 38 نشستیں ڈی ایم کے قیادت والے اتحاد نے جیتی۔ آندھرا پردیش کی 25 سیٹوں میں سے 23 سیٹوں پرجگن موہن ریڈی کی وائی ایس آرکانگریس نے جیتی جبکہ دو نشستیں تیلگو دیشم کو ملی۔


مغربی بنگال، اڑیسہ اور تلنگانہ میں بھی بی جے پی کو علاقائی پارٹیوں سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی بنگال میں پوری طاقت جھونکنے کا بی جے پی کو فائدہ تو ملا لیکن اسے ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس سے سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ ترنمول کانگریس نے ریاست کی 42 میں سے 22 سیٹیں جیتیں، بی جے پی کو 18 سیٹیں ملی۔ مغربی بنگال کی طرح اڑیسہ میں اپنی طاقت کو بڑھانے میں مصروف رہی بی جے پی کو برسراقتدار بیجو جنتا دل سے پارپانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ وہ ریاست کی 21 سیٹوں میں سے آٹھ سیٹیں ہی جیت سکیں۔ بیجو جنتا دل نے 12 سیٹوں پر جیت حاصل کرکے اپنا دبدبہ دکھایا۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس نے 17 میں سے نو سیٹیں جیتیں۔ بی جے پی چار سیٹیں ہی جیت پائی۔

لوک سبھا انتخابات کے ساتھ چار ریاستوں -آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، اڑیسہ اور سکم کی اسمبلی کے لئے انتخابات ہوئے تھے۔ اروناچل پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا بول بالا رہا اور ان کی حکومتیں بنیں۔ آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات میں وائی ایس کانگریس نے 175 میں 151 نشستیں جیت کر اپنا دبدبہ قائم کیا۔ تیلگودیشم کو 23 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ اڑیسہ میں بیجو جنتا دل نے 147 میں سے 113 نشستیں جیت کر ایک بار پھر حکومت بنائی۔ بی جے پی کو 23 سیٹیں ہی مل پائی۔ سکم میں مقابلہ دو علاقائی پارٹیوں کے درمیان ہوا جس میں ایس کے ایم نے ایس ڈی ایف کو شکست دے کر حکومت بنائی۔


اکتوبر میں ہونے والے ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بھی علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ دکھائی دیا۔ ہریانہ میں دشینت چوٹالہ کی جن نائیك جنتا پارٹی پہلے ہی انتخابات میں ’کنگ میکر‘ بن گئی۔ اکثریت کے اعداد کو چھونے میں ناکام رہی بی جے پی نے اس سے ہاتھ ملا کر ریاست میں دوسری بار حکومت بنائی۔ مہاراشٹر میں شیو سینا نیشنلسٹ کانگریس اور کانگریس پارٹی ادھو ٹھاکرے حکومت کا بنیادی محور بنے۔ ریاست میں بی جے پی اور شیوسینا نے مل کر الیکشن لڑا تھا اور ان کے اتحاد کو اسمبلی میں واضح اکثریت مل گئی تھی۔ دونوں کے درمیان وزیر اعلی کے عہدہ کو لے کر تنازع ہونے پر شیوسینا نے اس سے ناطہ توڑ لیا اور این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔

سال کے آخر میں جھارکھنڈ میں ہونے والے انتخابات میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا جادو ووٹروں کے سر چڑھ کر بولا۔ اس کی قیادت والے کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل اتحاد نے بی جے پی کو کراری شکست دے کر اقتدار سے باہر کر دیا۔ اتحاد کو 81 رکنی اسمبلی میں سے 47 سیٹیں ملیں۔ بی جے پی 25 سیٹیں ہی جیت پائی۔ ریاست کے قیام کے بعد سے سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل کرتی آئی بی جے پی اس بار اس میں بھی پچھڑ گئی۔ اس انتخاب میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے سب سے زیادہ 30 سیٹیں جیتیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔