وسندھرا راج میں غریبوں کو نہیں مل رہا راشن
راجستھان میں سرکاری احکام جاری کر کے کروڑوں لوگوں کے نام کاٹ دیے گئے ہیں جس سے غریبوں کو راشن نہیں مل پا رہا ہے۔
راجستھان میں مہارانی وسندھرا راجے حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس بات کا اشارہ حال میں ہوئے تمام انتخابات کے نتائج پہلے ہی دے چکے ہیں کہ راجستھان میں بی جے پی حکومت کی دیواریں ہل رہی ہیں اور اس کی زمین کھسک چکی ہے۔ خصوصاً دیہی راجستھان میں بی جے پی کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ کروڑوں غریب لوگوں کو فورڈ سیکورٹی اور پنشن جیسے سماجی انصاف والے منصوبوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ دسمبر 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وسندھرا راجے حکومت نے اب تک 2 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو فوڈ سیکورٹی سے محروم کر دیا ہے۔
’قومی آواز‘ نے اپنی خصوصی تحقیق میں اخذ کیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اگست 2017 سے لے کر جنوری 2018 کے درمیان راشن کا گیہوں لینے سے محروم کیے گئے لوگوں کا اوسط نکالا جائے تو فوڈ سیکورٹی قانون کے تحت فائدہ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں سے 27 فیصد لوگوں کو راشن کا گیہوں نہیں ملا۔ راجستھان حکومت نے اسمبلی میں 20 مارچ 2017 کو دیے ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ ریاست میں 4 کروڑ 40 لاکھ 71 ہزار تین لوگوں کو راشن ملتا ہے۔ لیکن اس تعداد کے 27 فیصد یعنی تقریباً 1.6 کروڑ لوگوں کو راشن کا گیہوں نہیں ملا ہے۔
اپریل 2016 میں اس وقت کے چیف سکریٹری (فوڈ اور شہری فراہمی) سبودھ اگروال نے بتایا تھا کہ کانگریس حکومت میں 5.46 کروڑ لوگوں کو راشن کا فائدہ مل رہا تھا اور اس میں سے 1.2 کروڑ سے زیادہ نام ہٹا دیے گئے ہیں۔
اگر ہم ان دونوں ہی سرکاری اعداد و شمار کو ملا دیں تو اس وقت راجستھان میں تقریباً 2 کروڑ لوگوں کو بغیر کسی بنیاد پر، بغیر کسی ٹھوس سروے کے فوڈ سیکورٹی کے فائدے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، تقریباً 10 لاکھ سے زائد نام پنشن حاصل کرنے والوں کے کاٹے گئے تھے۔ ان میں سے تقریباً 3 لاکھ لوگوں کو کاغذوں میں مردہ بنا دیا گیا تھا۔ ان میں سے 1 لاکھ لوگوں کے زندہ ہونے کی تفصیلات راجستھان سے شائع ہونے والے اخبار ’دینک بھاسکر‘ نے شائع کی۔ اس خبر پر بہت ہنگامہ بھی ہوا۔ ان میں سے 1 لاکھ لوگوں نے سامنے آکر خود کو زندہ ثابت کیا ہے۔
راجستھان میں فوڈ اور شہری فراہمی کے وزیر بابو لال ورما نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’اگر کچھ نام غلطی سے کٹ گئے تو اسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔ کوئی بھی محروم نہیں کیا جا رہا ہے، نام جوڑنے کا عمل جاری ہے۔‘‘ لیکن زمینی حقیقت پریشان کرنے والی ہے۔ راشن کی فہرست میں نام جڑوانے کا عمل اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ غریب و بزرگ کے لیے ناممکن سا معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے حکومت کی رپورٹ میں بھی ہر مہینے گیہوں ملنے والے لوگوں کی تعداد الگ الگ ہے۔
اس سلسلے میں راجستھان کے راج سمند میں کام کر رہے ’مزدور کسان سنگھرش سمیتی‘ کے لیڈر شنکر سنگھ نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ راجے حکومت سماجی سیکورٹی والے منصوبوں کو فرضی بنانے پر آمادہ ہے۔ بغیر کسی سروے یا ڈاٹا کے دو سال قبل 2016 میں 10 لاکھ لوگوں کے نام ہٹا دیے۔ اس میں سے 3 لاکھ لوگوں کو مردہ بتا دیا گیا جن میں سے 2.5 لاکھ لوگوں نے زندہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
وسندھرا راجے حکومت کے خلاف جو سیاسی ماحول بن رہا ہے اس کی ایک بڑی زمین ان اسباب کی بنا پر ہی تیار ہو رہی ہے۔ حق اطلاعات قانون کی معروف کارکن اور رمن میگسیسے ایوارڈ یافتہ ارونا رائے کا کہنا ہے کہ ’’غریبوں کے حق مارے جانے کی سیاسی گونج تو ہونی ہی چاہیے۔ یہی ہو رہا ہے اور یہ آواز مزید تیز ہوگی۔‘‘
اس ایشو پر کانگریس لیڈر سچن پائلٹ نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’راجستھان کی وسندھرا راجے حکومت غریب اور عام شہریوں کے خلاف کھڑی ہوئی ہے اور ان کا حق مار رہی ہے۔ اب ہوا ان کے خلاف بہہ رہی ہے۔‘‘ کسانوں کے درمیان کام کر رہے جتیندر چھاچھر نے بتایا کہ راجستھان اُبل رہا ہے۔ ہر طبقے کے حقوق کو مارا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان، دلت، غریب اور محروم طبقہ خود کوو سندھرا راجے حکومت سے ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔
راشن کے ارد گرد بہت بڑے گھوٹالے ہو رہے ہیں۔ راشن کا فائدہ ملنے والوں کی فہرست لگاتار کم ہو رہی ہے لیکن فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) کے سنٹر سے راشن اٹھانے کی مقدار میں اس طرح کی گراوٹ نہیں درج کی جارہی ہے۔ راجستھان حکومت نے پوس مشین (پوائنٹ آف سیل) کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی اگر فائدہ اٹھانے والوں کے انگوٹھے کا اس مشین پر ملان نہیں ہوتا ہے تو اسے راشن نہیں ملے گا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو محروم کیے جانے پر ہنگامہ ہوا تو حکومت نے ایک اور عجیب سی شرط جوڑ دی۔ اب اگر انگوٹھے کے نشان کا ملان نہیں ہوتا ہے تو آدھار کارڈ پر درج موبائل نمبر پر ایک او ٹی پی آئے گا اور اس سے راشن دینے کی کوشش کی جائے گی۔
یعنی تمام غریبوں کے پاس موبائل نمبر ہو، او ٹی پی آئے اور پھر گھر کا چولہا جلے۔ ان حرکتوں نے غریبوں کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ ’کھانے کا حق‘ تحریک سے جڑے کارکن ونیت نے بتایا کہ ’’گزشتہ کچھ مہینوں کے سرکاری اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے اگر صرف گیہوں لینے والے شہریوں کی تعداد پتہ کی جائے تو صاف ہوگا کہ گزشتہ چھ مہینوں میں 20-25 فیصد لوگوں کو راشن نہیں مل رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں تقریباً 4 لاکھ لوگوں کو غائب لوگوں کی لسٹ میں ڈالا گیا ہے اور انھیں فوڈ سیکورٹی فہرست سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو باہر کے مزدور ہیں۔ یہ کئی مہینے باہر رہنے کے بعد جب باہر سے واپس آتے ہیں تب ان کا نام کٹ جاتا ہے۔ یہ بے حد غریب ہیں۔‘‘
بجٹ اینالیسس اینڈ ریسرچ سنٹر ٹرسٹ کے ڈائریکٹر نثار احمد کا کہنا ہے کہ بہت بڑے سطح پر گھوٹالے ہو رہے ہیں۔ نام تو کاٹ دیے گئے، راشن کا فائدہ لینے والوں کی تعداد تو گھٹی ہے، لیکن ایف سی آئی سے اٹھانے والے گیہوں کی مقدار کم نہیں ہوئی ہے۔ نثار احمد جس گھوٹالے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اس سے جڑی کئی خبریں گزشتہ کچھ مہینوں سے لگاتار آ رہی ہیں۔ 2017 کے اکتوبر میں ’دینک بھاسکر‘ نے اس بارے میں خبر شائع کی تھی کہ کس طرح سے راشن کے گیہوں کی دلالی ہو رہی ہے اور لوگوں کو راشن دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
راجستھان میں اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو راشن کے قانونی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اس سے وسندھرا حکومت کی شبیہ غریب مخالف بن گئی ہے۔ اس کی بھاری سیاسی اور سماجی قیمت وسندھرا راجے حکومت کو ادا کرنی پڑسکتی ہے اور اس کا اندازہ خود بی جے پی کے لیڈروں کو بھی ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا غریبوں کی یہ ’آہ‘ وسندھرا اور بی جے پی اقتدار کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔