راہل نے جو بیانیہ سیٹ کیا ہے اس کو وزیر اعظم آج کس طرح توڑیں گے؟

آج بحث کا تیسرا اور آخری دن ہے جس میں وزیر اعظم کا جواب سب سے اہم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حزب اختلاف کے خلاف کس طرح کا بیانیہ سیٹ کرتے ہیں

<div class="paragraphs"><p>لوک سبھا میں راہل گاندھی / یو این آئی</p></div>

لوک سبھا میں راہل گاندھی / یو این آئی

user

سید خرم رضا

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حزب اختلاف کی جانب سے لوک سبھا میں حکومت کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کسی بھی حالت میں منظور نہیں ہونی تھی اور حزب اختلاف اس حقیقت سے بخوبی واقف تھی۔ سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف لوک سبھا میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیوں لایا اور کیا  اس کو لانا اس کی مجبوری تھی یا یہ حکومت کی جانب سے پھینکا گیا جال تھا، جس میں وہ پھنس گئی؟ دونوں کے حامی اپنے اپنے حق میں دلائل دے رہے ہیں اور کسی حد تک یہ کہا بھی جا سکتا ہے کہ دونوں عام انتخابات سے ایک سال قبل اس تحریک کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

حزب اختلاف کا دعوی ٰ ہے کہ یہ تحریک  منی پور پر وزیر اعظم کی خاموشی توڑنے میں کامیاب رہے گی اور اسی وجہ سے تحریک پیش کرتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے سوال کیا کہ منی پور جل رہا ہے لیکن وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں اور وہ کیوں اس پر نہیں بولتے؟ شائد وہ بھول گئے کہ وزیر اعظم چاہے کسی بھی چیز پر بول لیں لیکن جن مسائل پر حزب اختلاف ان کا بیان چاہتا ہے ان پر ان کی خاموشی نہیں ٹوٹتی چاہے وہ سی اے اے، این آر سی کے خلاف احتجاج ہو، کسانوں کا احتجاج ہو یا پہلوانوں کا احتجاج۔


بہرحال گورو گگوئی نے جس شاندار طریقے سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، اس کی توقع بھی نہیں تھی اور وہ تمام سوال اٹھائے جو وقت اور تحریک کی ضرورت تھے۔ ان کے جواب میں پہلے مقرر کے طور پر نشی کانت دوبے نے جب گورو گگوئی کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دیا تو انہوں نے یہ طے کر دیا کہ حکمراں جماعت اس تحریک کو کس طرح اپنے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے اور وہ  منی پور  پر نہیں بلکہ 2024 کے عام انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جواب دے گی۔ حکمراں جماعت نے  نشی کانت دوبے کے ذریعہ جواب دینے کی پہل کرا کر حزب اختلاف کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ وہ اس بحث کو کس سطح پر لے جانا چاہتی ہے! جبکہ ان کے پاس راج ناتھ سنگھ اور کانگریس سے گئے جیوترادتیہ سندھیا جیسے شاندار مقرر موجود  تھے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کا پہلا دن گورو گگوئی کے نام رہا جبکہ کئی ارکان نے اچھی تقاریر کیں۔ عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کے  دوسرے دن کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اپنے مختصر خطاب کے دوران جو تاثر چھوڑا وہ ان کے دل کی آواز بھی نظر آئی اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے لئے بیانیہ سیٹ کرنے کا ذریعہ بھی نظر آیا۔ راہل گاندھی کی تقریر کو معیاری تقریر کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا لیکن انہوں نے حکمراں جماعت کو ان کی زبان میں جواب دے کر اپنا سیاسی قد بھی بڑھا لیا اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ صرف اپنی حکومت کا رپورٹ کارڈ پیش کرتے رہیں اور ملک کے مسائل کے لیے کانگریس کے ستر سال کے اقتدار کو ذمہ دار ٹھہراتے رہیں۔ راہل گاندھی نے اپنے منی پور کے دورے کے دوران جن خواتین سے ملاقات کی ان کا ذکر، منی پور میں ہندوستانی آواز کا قتل، حکمراں جماعت کا موازنہ تکبر سے بھرے راون سے کرنا اور میگھناد اور کمبھ کرن کو حکمراں جماعت کے کان ناک ہونے کی بات کہہ کر عوام کے دل کی بات کی۔ نشی کانت دوبے کا دروپدی کا چیر ہرن والی بات سے جتنا نقصان حکمراں جماعت کو پہنچا اس سے کہیں زیادہ فائدہ راہل گاندھی کے راون کے تکبر والی مثال سے حزب اختلاف کو پہنچا۔


بحث کے دوران کاکولی گھوش دستیدار، کنیموزی اور فاروق عبداللہ نے ٹھوس دلائل رکھے اور دوسرے دن کے آخر میں وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی دو گھنٹے کی تقریر میں جہاں حکومت کی کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی، وہیں انہوں نے حزب اختلاف کے تمام دعووں پر کھل کر جواب دیا۔  انہوں نے بہتر انداز میں تقریر کی لیکن ان کے پاس تمام اعداد و شمار ہونے کے باوجود وہ سیاسی طور پر عوام کو اپنی طرف راغب کرنے میں اتنے کامیاب نظر نہیں آئے جتنے راہل گاندھی۔ ان کی تقریر صرف ان کے اپنے ووٹروں کے لئے اور حامیوں کے جواب کے طور پر بہتر رہی لیکن بیانیہ سیٹ کرنے میں ناکام رہی۔

دو دنوں  میں ہوئی تقاریر سے  تو یہی لگتا ہے کہ حزب اختلاف نے حکمراں جماعت کو گھیر لیا ہے کیونکہ 70 سال کی کانگریس اقتدار کی تاریخ اور حکومت کے کام کاج سے عوام کی اکثریت واقف ہے۔ بہرحال آج بحث کا تیسرا اور آخری دن ہے جس میں وزیر اعظم کا جواب سب سے اہم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حزب اختلاف کے خلاف کس طرح کا بیانیہ سیٹ کرتے ہیں۔  

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔