نوٹ بندی نے کیسے بھرے پورے گھر اور کاروبار اجاڑ دئے!
نوٹ بندی کا شکار ایک بد نصیب باپ عبدالعزیز، جو اپنی بیٹی کے غم میں شہید ہو گیا اورپھر کبھی اپنے آبائی وطن نہیں لوٹ سکا وہ آج میرٹھ میں بالے میاں کی مزار کے نزدیک دفن ہے۔
میرٹھ کے نوچندی میدان سے ملحقہ ایک قبرستان ہے جو ’بالے میاں کی درگاہ ‘ کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں پر ہزاروں افراد دفن ہیں اور انہی کے بیچ دفن ہیں عبد العزیز انصاری۔
ساٹھ سالہ عبد العزیز میرٹھ کے محلہ اسلام آباد میں پاور لوم کے ایک کارخانہ میں مزدوری کرتے تھے، ان کا آبائی گھرمیرٹھ سے 1200 کلومیٹر دور دربھنگہ ضلع (بہار ) میں تھا۔ 8 نومبر 2016 کو جیسے ہی عبد العزیز کو معلوم چلا کہ ان کے پاس رکھے تمام روپے ’ردی ‘ ہو چکے ہیں تو وہ بے چین ہو اٹھے۔ ان کے پاس پیسہ تو تھا لیکن وہ کھانے پینے کا ساما ن نہیں خرید سکتے تھے، یہاں تک کہ چائے بھی نہیں پی سکتے تھے۔
پرانی کرنسی کے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے تبدیل کرنے کے لئے وہ میرٹھ کے ہاپوڑ اڈے واقعہ ایس بی آئی کی گولا کنواں برانچ کے باہر قطار میں لگ گئے۔ قطار لمبی تھی اور عبدالعزیز ضعیف اور کمزور ۔ پیسہ بدلنے کے لئے گویا ایک جنگ چل رہی تھی جس میں کمزور ہڈیوں والے عبد العزیز ہار گئے اور ان کے پیسے نہیں بدلے گئے۔
عبد العزیز کے ساتھی اشتیاق احمد (43) نے بتایا، ’’پہلے دن عبدالعزیز پیسہ نہیں بدل پائے ، وہ بہت زیادہ پریشان تھے۔ دوسرے دن وہ پھر گئے لیکن ان کا پیسہ پھر بھی نہیں بدلا گیا۔ ‘‘ اشتیاق نے کہا، ’’تیسرے دن بھی وہ بینک پہنچے اور دوپہر کو وہیں گر گئے اور وہیں ان کی جان چلی گئی۔ ‘‘
اشتیاق بتاتے ہیں کہ ان کے تناؤ کی ایک وجہ اور تھی، دراصل وہ اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے تھے اور کئی سالوں سے وہ اس کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے۔ کارخانہ کا مالک جب بھی ان کو تنخواہ ادا کرتا تو وہ اس میں سے بہت ہی کم خرچ کرتے اور تنخواہ کا زیادہ تر حصہ سنبھال کر رکھ دیتے۔ ڈھائی دن تک لگاتار قطار میں لگنے کے بعد ان کی امید ٹوٹ گئی۔ ان کے خاندان کے افراد دربھنگہ میں بھی پیسے نہیں نکال پا رہے تھے۔ وہ ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہو گئے کہ آخر کار ان کا دل بیٹھ گیا اور جان چلی گئی۔
عبدالعزیز کو میرٹھ میں بالے میاں کی مزار کے نزدیک دفن کر دیا گیا اور ایک بد نصیب باپ جس کی اپنی بیٹی کی شادی کی فکر نے اس کی جان لے لی وہ پھر کبھی اپنے آبائی وطن نہیں لوٹ سکا ۔
نوچندی نے سہارنپور کے محلہ مچھیران کے ایک خاندان کو بھی برباد کر دیا۔ یہاں کے نواب علی (44) بیماری میں مبتلا تھے۔ وہ رکشہ چلاکر اپنے خاندان کا پیٹ پالتے تھے لیکن 15 دن سے بستر پر تھے۔ ان کی بیوی رخسانہ (40) چار دن تک لگاتار بینک کے چکر لگاتی رہی لیکن ان کے نوٹ نہیں بدلے گئے اور آخر کار نواب کی بھی جان نوٹ بندی کی نذر ہو گئی ۔
نواب علی تھانہ منڈی علاقہ کے رہائشی تھے اور پیٹ کے انفیکشن سے پریشان تھے۔ ڈاکٹر نے پرانے چلن کے نوٹ لینے سے انکار کر دیا ، لہذا نواب علاج سے محروم رہ گئے۔ نواب کی بیوی رخسانہ کہتی ہیں، ’’میں چار دن تک پورے پورے دن لائن میں لگی رہی۔ چوتھے دن جب میرا نمبر آیا تو بینک والوں نے کہا پیسہ ختم ہو گیا۔ بینک کے لوگ خاص لوگوں کے پیسے بدل رہے تھے لیکن عام لوگوں کے نہیں ۔ میں بہت روئی، گڑگڑائی لیکن میرے 5 ہزار روپے انہوں نے نہیں بدلے۔ ‘‘
رخسانہ روندھے گلے سے کہتی ہیں، ’’میرے شوہر کی موت کی وجہ سے میرا گھر برباد ہو چکا ہے۔ میرے بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ میری بددعا لگے گی انہیں۔ آج ہمارے گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ کھانے کے بھی لالے ہیں۔ ہماری بھیک مانگنے کی نوبت آ گئی ہے۔‘‘ رخسانہ کے پڑوسی اطہر کہتے ہیں، ’’جو کچھ حکومت نے کیا وہ شرم ناک ہے۔ نواب علی کے چار بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں سیانی ہو رہی ہیں ۔ اب ان بچیوں کا کیا ہوگا۔ ‘‘
مظفر نگر شہر میں لوہا منڈی ہندوستان کی دوسرے نمبر کی لوہے کی مارکٹ ہے۔عمارتوں میں مضبوطی دینے والے لوہے کا یہ بازار نوٹ بندی کی وجہ سے اوندھے منہ گر چکا ہے۔ حیرت انگیز طور پر 30 فیکٹریاں بند ہو گئ ہیں ۔ بند ہونے والی فیکٹریوں میں رانا گارڈر، برنالا اسٹیل اور آشیرواد اسٹیل جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
مظفر نگر کے ایک صنعت کار ’بندل ڈوپلیکس‘ کے مالک پنکج اگروال کہتے ہیں، ’’نوٹ بندی بے حد جلدبازی اور بغیر ریسرچ کے لیا گیا ایک انتہائی غلط فیصلہ تھا۔ یہ صرف نوٹ بندی ہی نہیں تھی بلکہ کاروبار بندی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔ چھوٹے کاروبار بند ہو گئے۔ ‘‘
نوٹ بندی پر جتنے بھی وعدے کئے گئے تھے وہ سب آج ہوا ہو چکے ہیں۔ مثلاً جعلی نوٹوں پر روک نہیں لگی، دہشت گردی پر کوئی فرق نہیں پڑا، معیشت مزید بدحال ہو گئی۔ حکومت کا دعوی تھا کہ کالے دھن پر لگام لگے گی لیکن یہاں بھی حکومت کو ناکامی ہی ہاتھ لگی اور آج تمام ماہر اقتصادیات اس فیصلے کی سخت الفاظ میں تنقیدکر رہے ہیں ۔
مظفر نگر کی لوہا منڈی کے بڑے کاروباری ذاکر رانا کہتے ہیں، ’’نوٹ بندی کے بعد کرنسی کا سرکولیشن ٹوٹ گیا ہے۔ سب سے زیادہ دقتیں اسکریپ (کچا مال) خریدنے میں آئیں۔ بازار میں پیسہ نہیں جا سکا اور رفتہ رفتہ کاروبار متاثر ہونے لگا۔ یہاں کی 32 فیکٹریوں سمیت چھوٹے چھوٹے بےشمار کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ ‘‘
اسد فاروقی کے مطابق ان کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں تو یقینی طور پر مینوفیکچرنگ بھی متاثر ہوگی۔ ہزاروں لوگوں کے روزگار ایک جھٹکے میں چھین لئے گئے۔ نوٹ بندی نافذ ہونے کے بعد کے تین مہینے تو ایک سانحہ کے طور پر یاد کئے جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Nov 2018, 7:09 PM