دہلی: تاریخی ہفتہ واری کتاب بازار کورونا کی نذر، کتب فروش پریشان
گزشتہ 56 سال سے تاریخی کتاب بازار دریاگنج میں لگ رہا تھا۔گزشتہ سال ٹریفک جام ہونے کی شکایت پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے شمالی میونسپل کارپوریشن کو بازار ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔
نئی دہلی: کورونا وائرس کے پیش نظر ملک بھر میں نافذ لاک ڈاؤن کے بعد تباہ معیشت کو پٹری پر لانے کے لئے دھیرے دھیرے اَن لاک کا عمل شروع ہو چکا ہے اور کئی بازاروں سمیت صنعتی اکائیوں کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ لیکن اب بھی کئی ایسے بازار ہیں جو اَن لاک ہونے کے بعد بھی اب تک بند ہیں۔ایسا ہی ایک بازار دہلی کا تاریخی 'ہفتہ واری کتاب بازار' ہے جو گزشتہ چار ماہ سے بند ہے۔ اس بندی کے سبب کتب فروش پریشان ہیں کیونکہ کا ذریعہ معاش بالکل ختم ہوگیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 56 سال سے یہ تاریخی بازار دہلی کے دریاگنج میں لگ رہا تھا۔گزشتہ سال بازار لگنے کی وجہ سے ٹریفک جام ہونے کی شکایت پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے شمالی میونسپل کارپوریشن کو بازار ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔ 21 جولائی 2019 کو کارپوریشن افسران نے بازار دریا گنج میں نہیں لگنے دیا۔نیز سنڈے بک بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن کی طویل جدو جہد کے بعد کارپوریشن نے 3 ماہ بعد بازار کو نئی جگہ دی اور یہ آصف علی روڈ واقع مہیلا ہاٹ میں منتقل کردیا گیا۔
15 ستمبر 2019 سے بازار نئی جگہ پر ہر اتوار کو لگ رہا تھا لیکن جیسے ہی ملک میں کورونا وائرس نے دستک دی تو دہلی حکومت نے تمام کتب فروشوں کو 8 مارچ 2020 کو بازار ہٹانے کے احکامات جاری کردئیے اور تب سے ہی بازار بند ہے جس سے کتب فروش پریشان حال ہیں۔اَن لاک کے بعد بھی بازار بند ہونے کی سب سے بڑی وجہ بازار کے نیچے شہنائی بینکیٹ کا کورونا کئیر سینٹر میں تبدیل ہونا ہے جس سے کتب فروش دوہری مار جھیل رہے ہیں۔پہلا مسئلہ یہ کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے پاس کوئی کام نہیں رہ گیا تھا، دوسرا یہ کہ جب ان لاک کے بعد کئی بازار کھل گئے ہیں تو ان کا بازار اب بھی بند ہے اور ان کے پاس جمع پیسے بھی ختم ہو گئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ان کتب فروشوں کو اپنے مستقبل کی فکر ستا رہی ہے۔ کتب فروشوں کا کہنا ہے کہ دہلی حکومت نے احتیاطاً مہیلا ہاٹ کو بند کیا ہے لیکن حکومت کو بھی اس پر توجہ دینی چاہیے تھی کہ وہ کتاب بازار کے لئے کوئی متبادل جگہ کی پیش کش کرے، یا ان کے لئے ماہانہ معاوضہ کا بندوبست کرے تاکہ کتب فروشوں کو کچھ راحت مل سکے۔
اس تعلق سے 'قومی آواز' کے نمائندہ نے سنڈے بک بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر قمر سعید سے بات چیت کی۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 4 ماہ سے بازار بند ہے جس کی وجہ یہاں اسٹال لگانے والے 276 کتب فروش پریشان حال ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش بالکل ختم ہو گیا ہے ایسی صورتحال میں اب یہ سب حکومت سے مدد کا مطالبہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ "ہم حکومت کے سبھی بازار کے بند کرنے والے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ کورونا وائرس انتہائی خطر ناک بیماری ہے۔ لیکن اب جب ملک سے لاک ڈاؤن ہٹنے لگا اور اَن لاک کا عمل شروع ہو گیا جس کے تحت کئی بازار کھل گئے ہیں، تو کتاب بازار کے ساتھ ایک الگ طرح کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ شہنائی بینکیٹ کو کورونا کئیر سینٹر میں تبدیل ہونے کے سبب مہیلا ہاٹ پر کتاب بازار کھلنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ایسے ماحول میں حکومت کو ریہڑی پٹری والوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"
قمر سعید نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ "لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کی طرف سے چاول اور گیہوں کی مدد دی گئی ہے جبکہ گھر چلانے کے لیے دیگر بنیادی ضروریات کا بھی پورا ہونا لازمی ہے جس میں بجلی اور پانی کا بل شامل ہے اور دیگر ضروری سامان کا خرچ بھی شامل ہے۔"انھوں نے مزید کہا کہ "لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد حکومت کی جانب سے چاول اور گیہوں کی مدد بھی اب ختم ہوگئی ہے۔گزشتہ چار ماہ سے کاروبار بند ہیں اور آگے بھی کھلنے کے امکانات نہیں ہیں۔ اب ہمیں یہ فکر ستا رہی ہے کہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھریں گے؟"
قمر سعید نے بتایا کہ اس وقت بازار سے وابستہ 276 کتب فروشوں میں سے کئی خالی بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ جن کے پاس جمع رقم تھی وہ اب ختم ہونے لگی ہے۔یہ سبھی کتب فروش لاک ڈاؤن ختم ہونے کے منتظر تھے کہ کب ماحول سازگار ہو اور ہم بازار لگائیں، لیکن لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد بھی ان کی پریشانیاں جوں کی توں برقرار ہیں جس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکز و ریاستی حکومت نے ریہڑی پٹری والوں کو 10 ہزار روپے الاؤنس دینے کا وعدہ کیا ہے جو بہت کم ہے، اس میں اضافہ کیا جائے۔
قمر سعید نے ساتھ ہی میونسپل کارپوریشن سے مطالبہ کیا کہ جب تک شہنائی بینکیٹ میں کورونا کئیر سینٹر قائم رہتا ہے تب تک وہ کتاب بازار کے لئے متبادل جگہ فراہم کرے تاکہ ہمیں راحت مل سکے۔ اس کے علاوہ دہلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ای رکشہ اور آٹو رکشہ ڈرائیور کی طرز پر کتب فروشوں کو بھی معقول معاوضہ دیا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Jul 2020, 6:11 PM