مسلمان 2019 میں متحد ہو کر ووٹ کریں تو بی جے پی کی خیر نہیں

ہندو ووٹوں کو کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی مٹھی میں نہیں کر پائی ہے اور نہ ہی آگے کر پائے گی، لیکن اگر مسلمانوں نے متحد ہو کر ووٹ کیا تو 2019 میں بی جے پی کی ہار یقینی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ملک میں 2014 میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی جو آر ایس ایس کے خطرناک منصوبوں پر چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سازی کے بعد سے ہی اقلیتی طبقہ سے وابستہ لوگوں کو کبھی موب لنچنگ کا شکار بنایا گیا، کبھی ان کے مذہبی جذبات مجروح کئے گئے اور کبھی اشتعال انگیز بیانات دے کر انہیں نفسیاتی طور پر توڑنے کی کوشش کی گئی۔

نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت یا پھر یوگی کی قیادت والی اتر پردیش حکومت یا پھر کسی دوسری ریاست کی بی جے پی حکومت ان سبھی کو یہ گمان ہے کہ اب یہ ناقابل تسخیر ہو گئے ہیں اور انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ہے۔ لیکن اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس، بی جے پی اور دوسری ہندوتوا تنظیموں کا تکبر خاک میں ملنے میں اب زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔

مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو بی جے پی کی حالت کس طرح خراب کر سکتے ہیں اس حوالہ سے دی کوئنٹ ہندی نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ راقم مینک مشرا کہتے ہیں کہ 2014 کے انتخابات اور اس سے پہلے بھی مسلمانوں نے متحد ہو کر ووٹنگ نہیں کی لیکن 2019 میں اس کا قوی امکان ہے کہ مسلمان متحد ہوکر ووٹ کر سکتے ہیں، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر بی جے پی اور ہندتوا کی خیر نہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں رام پور لوک سبھا سیٹ بی جے پی امیدوار نے محض 37 فیصد ووٹ حاصل کر کے جیتی تھی۔ اس حلقہ انتخابات میں مسلم ووٹر 50 فیصد ہیں۔ 2014 میں یہاں سے 12 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے تھے جن میں سے 7 مسلم تھے۔ بی جے پی کے علاوہ دیگر تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مسلم امیدواروں کو ہی میدان میں اتارا تھا جس کی وجہ سے مسلم ووٹوں کا بٹوارہ ہوا۔

یہ تو تھی 57 مہینے پہلی کی بات، اُس وقت عوام کو روزگار کے خواب دکھائے جا رہے تھے۔ کالے دھن کے خاتمے کے وعدے کئے جا رہے تھے۔ ہندوتوا کو گھٹی پلائی جا رہی تھی۔ ’اچھے دن‘ کا وعدہ اتنا سہانا تھا کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ’ٹرول آرمی‘ بھی گالی گلوج پر آمادہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ اتنی خطرناک تھی جتنی کہ آج ہو گئی ہے۔

اب تبدیل شدہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ رواں سال اتر پردیش کی کیرانہ لوک سبھا سیٹ پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ آر ایل ڈی کی مسلم امیدوار نے 52 فیصد ووٹ حاصل کر کے یہاں سے جیت حاصل کی۔ اس سیٹ پر 38 فیصد مسلمان ہیں۔ دو دیگر مسلم امیدواروں کے میدان میں ہونے کے باوجود اتحاد کی مشترکہ امیدوار نے زیادہ تر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کئے۔

دراصل 2014 اور اب کی صورت حال میں کافی فرق آ گیا ہے اور یہ فرق سیاسی طور پر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلے مسلمان کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں کرتے تھے، 2014 میں یہی ہوا تھا لیکن آج کل ہندوتوا کی جو ننگی تلواریں نظر آ رہی ہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں میں ووٹ کی طاقت کے ذریعہ ہی جواب دینے پر عام رائے بنتی نظر آ رہی ہے اور یہی آگے بڑھنے کا درست راستہ بھی ہے۔

ادھر نام بدلنے کی ایک مہم شروع ہو گئی ہے۔ ملک کی مشترکہ وراثت پر اسلام کی چھاپ مٹانے کے لئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہ ہندوتوا کی ننگی تلوار اور اشتعال انگیزی کی ایک کڑی ہے۔

کیرانہ کے ضمنی انتخاب سے شاید مسلمانوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ آگے متحد ہو کر کسی بھی امیدوار یا پارٹی کے لئے ووٹ کریں گے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر اس کا کیا اثر ہوگا؟

اسے سمجھنے کے لئے پہلے کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ ملک میں 14 پارلیمانی حلقہ انتخابات ایسے ہیں جہاں 50 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ آسام میں ایسی 4 سیٹیں ہیں جبکہ مغربی بنگال اور جموں و کشمیر میں 3-3 سیٹیں، اس کے علاوہ کیرالہ میں دو، بہار میں ایک اور لکشدیپ میں بھی ایسی ایک سیٹ ہے۔

علاوہ ازیں 13 سیٹیں ایسی ہیں جہاں 40 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ اگر دونوں کو ملا لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ 27 لوک سبھا سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر مسلم طبقہ جس امیدوار یا پارٹی کو چاہے اسے کامیاب بنا سکتا ہے۔

قابل اعتماد اندازے کے مطابق ملک میں 20 فیصد سے زیادہ مسلم ووٹروں والی 101 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 50 تو ایسی ہیں جہاں ایک تہائی مسلم ووٹر ہیں۔ ان اعداد و شمار کے باوجود کیا وجہ ہے کہ مسلم عوامی نمائندگان کی تعداد لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے؟۔

یہ سب مسلم ووٹوں کی تقسیم کو وجہ سے ہو رہا ہے لیکن یہ بھی اب گزرے وقت کی بات ہے۔ جب کچھ پارٹیاں مبینہ طور پر اقلیتوں کے اپیزمنٹ (تشٹی کرن) کے لئے کچھ پارٹیوں پر تنقید کر رہی تھی۔ حالانکہ اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اپیزمنٹ کبھی ہوا ہی نہیں۔

دراصل مسلمانوں کے کاروباری طور پر خود کو مضبوط بنانے کی مہم چھیڑ دی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ انہوں نے حکومتوں کی طرف یا سیاسی طور پر فائدہ کے بارے میں نہیں سوچا۔ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ اب مسلمان جن کارباروں سے وابستہ ہیں انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گوشت کا کاروبار اس کی مثال ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی ہے۔ ادھر مسلمانوں سے جڑی ہر چیز کو کمتر ظاہر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جس کے سبب ان کے اندر بے چینی بڑھی ہے۔ ساتھ ہی ان میں ووٹ کی طاقت کا احساس بھی تقویت پہنچا رہا ہے۔

اشتعال انگیز ہندتوا کے ایجنڈے پر کام کرنے والی برسراقتدار بی جے پی یہ جان لے کہ ہندو ووٹوں کو کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی مٹھی میں نہیں کر پائی ہے اور نہ ہی آگے کر پائے گی، لیکن اگر مسلمانوں نے متحد ہو کر ووٹ کیا تو 2019 میں بی جے پی کی ہار یقینی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Nov 2018, 5:44 PM