ہندوؤں کی گھر واپسی ٹھیک، لیکن فساد متاثرہ مسلمانوں کا کیا؟
کیرانہ سے ہجرت کر گئے اکثریتی طبقہ کے لوگوں کی واپسی کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں لیکن مظفر نگر فساد متاثرین یہ سوال قائم کر رہے ہیں کہ کیا وہ انسان نہیں ہیں!
کیرانہ ضمنی انتخاب کا اعلان آئندہ ماہ ہونے کے امکانات کے ساتھ یہاں تقسیم کی سیاست بھی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی اس لوک سبھا سیٹ پر بی جے پی اب ان کی بیٹی مرگانکا سنگھ کو انتخاب لڑا رہی ہے۔ حال ہی میں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ یہاں پہنچے تھے اور انھوں نے مرگانکا کو یہاں سے امیدوار بنانے کی بات کہی تھی۔
کیرانہ حلقہ میں مرحوم حکم سنگھ کو ہندوؤں کی ہجرت سے متعلق بیان پر کافی شہرت ملی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کیرانہ میں مسلمانوں کی بڑھتی بالادستی سے ہندوؤں کی ہجرت ہوئی ہے۔ اس کے بعد یہاں بی جے پی حکومت میں 14 بدمعاشوں کو پولس نے انکاؤنٹر میں مار ڈالا جو کہ مسلمان تھے۔ اب حکم سنگھ کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی مرگانکا انتخاب کی تیاریوں میں مشغول ہو گئی ہیں۔ انھوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مبینہ طور پر ہجرت کر گئے لوگوں کی واپسی کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔
مرگانکا سنگھ کیرانہ سے مبینہ طور پر ہجرت کر چکے اکثریتی طبقہ کے لوگوں کو قصبہ میں واپس لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مرگانکا کا سنگھ کہتی ہیں کہ ’’اب قانون کی حکمرانی ہے۔ کیرانہ جرائم اور جرائم پیشوں سے آزاد ہو گیا ہے اس لیے یہاں سے ہجرت کر گئے لوگوں کو اب واپس لوٹ آنا چاہیے۔ ہم اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور یہ لوگ لوٹ آئیں گے۔ حکومت بھی اس کے تئیں سنجیدہ ہے۔‘‘
مرگانکا سنگھ کی ان کوششوں کے بعد کیرانہ کی سیاست میں کافی گرمی آ گئی ہے۔ 2013 کے مظفر نگر فسادات کے بعد یہاں 50 ہزار سے زیادہ فساد متاثرین نے پناہ لی تھی اور اس وقت کا سب سے بڑا کیمپ ملک پور کیرانہ سے بالکل ملحق تھا۔ اسی کیمپ میں ٹھنڈ کی وجہ سے ایک درجن سے زائد بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ ان فساد متاثرین کی جھونپڑیوں کو بھی بلڈوزر سے گرا دیا گیا تھا۔ باغپت بڑوت شاملی کے کئی گاؤوں کے ہزاروں فساد متاثرین واپس اپنے گاؤوں نہیں گئے اور کبھی حکومت کی جانب سے اس کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہوئی۔ اب جب کہ کیرانہ میں بدمعاشوں کے خوف یا دیگر اسباب کی بنا پر کیرانہ چھوڑ کر چلے گئے اکثریتی طبقہ کے لوگوں کی واپسی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں تو یہ فساد متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر فساد متاثرین سوال قائم کر رہے ہیں کہ کیا وہ انسان نہیں ہیں یا ان کی کسی کو پروا نہیں ہے؟
فساد متاثرین سے بات کرنے پر وہ اپنی تکلیف اور اپنا درد کھل کر بیان کر دیتے ہیں۔ کیرانہ کے جولا میں رہنے والے 61 سالہ مہتاب کہتے ہیں کہ ’’کاش کوئی ہم سے بھی آ کر پوچھ لیتا کہ گھر یاد آتا ہے یا نہیں!‘‘ مہتاب 2013 میں ہوئے مظفر نگر فساد میں پھگانا سے اپنی فیملی کے ساتھ لوٹ کر آئے تھے۔ مہتاب جیسے ہزاروں لوگوں کی یہی کہانی ہے۔ شاہ پور میں رہائش پذیر 27 سالہ ندیم کا سوال ہے کہ ’’گھر کون نہیں جانا چاہتا! لیکن حکومت یہ ثابت تو کرے کہ وہ ایماندار ہے۔‘‘کیرانہ کے مہراب حسن کہتے ہیں کہ ’’کیرانہ میں بدمعاشوں سے پریشان تاجروں کو لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ان کا استقبال ہو رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ 14 بدمعاشوں کو پولس نے انکاؤنٹر میں مار دیا ہے جس سے لوگوں میں اعتماد پیدا ہوا ہے۔ حکومت فساد متاثرین کو واپس گاؤں واپسی کی صلاح بھی دیتی ہے لیکن ان میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔‘‘
دیکھا جائے تو یہ پوری طرح سے تفریق کا معاملہ ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے فساد متاثرین کا دل ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے۔ کیرانہ میں باغپت سے آ کر پناہ لینے والے محفوظ کہتے ہیں ’’میں کیا کہہ سکتا ہوں جب کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔