'ہماچل چاہتا ہے کہ سیاح آئیں اور خوشگوار ماحول سے لطف اندوز ہوں'

ہماچل کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی کوششوں سے خوفناک تباہی کے باوجود ریاست ایک ماہ کے اندر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ پیش خدمت ہیں ان کے ساتھ گفتگو کے اہم اقتباسات:

<div class="paragraphs"><p>تصویر سنڈے نوجیون</p></div>

تصویر سنڈے نوجیون

user

قومی آواز بیورو

شملہ: ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی کوششوں سے خوفناک تباہی کے باوجود ہماچل پردیش ایک ماہ کے اندر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے جنگی بنیادوں پر راحت اور بچاؤ کا کام کیا ہے اور ہماچل کے لوگوں نے اس میں تعاون کیا لیکن ان کا یہ شکوہ ہے کہ اس بحران کے دوران نہ تو مرکزی حکومت اور نہ ہی ہماچل پردیش کی اپوزیشن پارٹی بی جے پی نے تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے ہماچل آفت کو قومی آفت قرار دینے کی تجویز کی حمایت نہیں کی۔

سکھوندر سنگھ سکھو نے کہا ہے کہ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ریاست میں نئے شہر قائم کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پالن پور اور جاکھیا دیوی میں دو نئے شہر قائم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کانگڑا کو سیاحتی دارالحکومت کے طور پر ترقی دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آفت سے متاثرہ لوگوں کو راحت پہنچانے کے لیے ہماچل پردیش نے ریلیف مینول میں تبدیلی کی ہے اور اس میں بیس گنا اضافہ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہماچل پردیش ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے اس طرح کا ریلیف پیکیج دیا ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ہماچل کے لوگوں نے ان پر بھروسہ کیا ہے اور وہ اس یقین کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

نیشنل ہیرالڈ، نوجیو اور قومی آواز کے لیے سکھوندر سنگھ سکھو کی نوجیون کے ڈیجیٹل ایڈیٹر تسلیم خان کے ساتھ گفتگو:

سوال: سوال: آپ کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالے بمشکل چھ ماہ ہوئے تھے کہ ریاست پر یکے بعد دیگرے دو آفات آئیں لیکن تقریباً ایک ماہ میں ہماچل اپنے پیروں پر کھڑا نظر آنے لگا، آپ نے یہ کرشمہ کس طرح کیا؟

یہ کوئی کرشمہ نہیں بلکہ یہ میرا فرض تھا، میری ذمہ داری تھی۔ یقیناً جب آفت آئی تو یہ بہت بڑا بحران تھا۔ میں ہر جگہ میدان میں پہنچا، اسے محسوس کیا، حکام کو ہدایات دیں، اور تمام عہدیداروں، کابینہ کے ساتھیوں نے کام کیا۔ میں سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ سب نے ہمارا ساتھ دیا اور اسی کی وجہ سے آج ہم دوبارہ اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

انفراسٹرکچر بنانے میں ایک ڈیڑھ سال کا وقت لگے گا لیکن آج ہم نے تمام سڑکیں کھول دی ہیں اور ہم ہر قسم کے سیاحوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہماچل محفوظ ہے۔ آپ تشریف لائیں اور یہاں کے خوشگوار ماحول سے لطف اندوز ہوں۔ ہماچل پردیش میں تباہی سے جو افرا تفری پیدا ہوئی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے اور اب یہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔


سوال: آپ نے میدان میں اتر کر قیادت کی اور ایک مثال پیش کی لیکن ہم وفاقی نظام ہیں، ایسی صورتحال میں مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آفت زدہ ریاست کے ساتھ کھڑا ہو۔ مرکز سے آپ کو کتنی، کس قسم کی اور کب مدد ملی؟

دیکھیں، ابھی تک مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ملا ہے۔ اب تک جو کچھ ملا ہے وہ پورے ملک کی ریاستوں کے لیے پہلے سے طے شدہ ڈیزاسٹر بجٹ سے حاصل کیا گیا ایڈوانس ہے لیکن ہم جس خصوصی ریلیف کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ پیکیج حاصل ہوگا یا نہیں یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ ہم نے اپنی ہماری طرف سے (ہماچل حکومت کی جانب سے) ریاست کے لیے 4500 کروڑ روپے کا خصوصی پیکیج شروع کیا ہے۔ تاہم، مرکز کے قواعد کے مطابق ہمیں جو فنڈ ملنا چاہئے وہ بھی ابھی تک نہیں ملا۔ خصوصی پیکج کا تو ذکر ہی کیا کریں، ہمیں تو ہمارے حقوق بھی نہیں ملے۔

یہ بہت افسوسناک ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہماچل یونٹ نے اس تجویز کی حمایت نہیں کی جس میں ہم نے ہماچل میں ہونے والی تباہی کو قومی آفت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا، ہماچل کے مفادات کو مدنظر رکھے بغیر انہوں نے ہمارے 12 ہزار کروڑ روپے کے خصوصی پیکیج کو مسترد کر دیا۔

سوال: تباہی سے ہونے والے نقصانات اور اس کی وجوہات پر واپس آتے ہیں۔ بہت باتیں ہوئیں، الزام برائے الزام کا دور بھی جاری رہا۔ آپ نے بھی کچھ باتیں کیں اور اندازہ لگانے کا ذکر بھی کیا۔ کیا تشخیص وغیرہ مکمل ہو چکی اور آفت کی وجوہات معلوم کر لی گئیں؟ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو؟

دیکھئے، ہماچل پردیش کو سب سے زییادہ نقصان بادل پھٹنے اور شددی بارشوں کی وجہ سے ہوا۔ جب پاور ہاؤسز کے ڈیم بھر گئے اور ان سے پانی چھوڑا گیا تو اس سے بھی کافی نقصان ہوا۔ بنیادی ڈھانچہ، پینے کا پانی، بجلی اور آبپاشی وغیرہ سب متاثر ہوئے ہیں۔ ان سب کا اندازہ لگانے کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ اس سب کی عارضی طور پر مرمت کی جائے، اسی لیے ہماچل پردیش میں اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی کوئی چیخ و پکار نہیں تھی، کوئی انارکی نہیں تھی، ہر چیز پرامن طریقے سے نمٹائی گئی۔


سوال: ہم نے تمام خبریں دیکھی ہیں کہ نہ صرف بڑی سڑکیں بلکہ کئی راستوں اور لوگوں کے مکانات وغیرہ کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، آپ نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے اور ریلیف مینوئل میں آپ نے کا تبدیل کی؟

ایک مرکزی حکومت کا ریلیف مینوئل ہے اور دوسرا ریاستی حکومت کا ریلیف مینوئل ہے۔ ریاستی دستور کے مطابق گھر کے مکمل تباہ ہونے کی صورت میں ایک لاکھ روپے اور جزوی طور پر 6500 روپے کی امداد دستیاب تھی۔ ہم ملک کی پہلی ریاست ہے جہاں مکان کے پوری طرح تباہ ہونے پر ریلیف ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر سات لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور پانی کے کنکشن مفت کر دیے گئے ہیں۔ گھر بنانے کے لیے استعمال ہونے والے سیمنٹ سے ٹیکس ہٹا کر اسے کم کر کے صرف 280 روپے فی بوری کر دیا گیا ہے۔ 16 ہزار خاندانوں کو ریلیف دیا گیا ہے، جن میں سے 3500 خاندانوں کے گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، ہماچل حکومت انہیں 7 لاکھ روپے فی گھر دے گی اور جن کے گھر جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں انہیں حکومت ایک لاکھ روپے دے گی۔ حکومت ان کسانوں یا خاندانوں کو فی جانور 55 ہزار روپے دے گی جن کی گائے، بھینس وغیرہ ہلاک ہو گئیں، گھوڑا وغیرہ مرنے پر 55 ہزار روپے فی جانور، بھیڑ یا بکری مارے جانے پر 6500 روپے دیے جائیں گے۔ پورے ہندوستان میں کسی ریاست نے اتنا ریلیف پیکج نہیں دیا ہوگا جتنا ہماری حکومت نے دیا ہے۔

سوال: جب ہم دہلی سے آرہے تھے تو دیکھا کہ کئی مقامات پر پہاڑ سیدھے کاٹے گئے ہیں یعنی تقریباً 90 ڈگری پر، ماہرین نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے کہ پہاڑوں کو اس طرح کاٹنا مصیبت کو دعوت دیتا ہے!

بلاشبہ۔ جب بھی سڑکیں بنتی ہیں تو لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ لیکن پہاڑ کو ڈھلواں کاٹنا چاہئے اور ویسے بھی پہاڑ کاٹنے پر اسے معمول پر آنے میں چار سے پانچ سال کا وقت لگتا ہے۔ انہوں نے تو اسے 90 ڈگر پر کاٹ دیا۔ ابھی ایین ایچ اے آئی کے ساتھ بات ہوئی،، انہوں نے اس پر غور کیای اور اب انہوں نے کہا ہے کہ وہ پہاڑوں کو اب ڈھلواں طریقہ سے ہی کاٹیں گے۔

سوال: اوور ٹورزم (حد سے زیادہ سیاحت) کی بات ہو رہی ہے، خاص طور پر شملہ، منالی یا دھرم شالہ جیسے شہر سیاحوں کے زیادہ دباؤ میں ہیں اور وہ سیاحوں کا دباؤ برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ کیا آپ کے پاس اس پر قابو پانے کے لیے کوئی منصوبہ یا کوئی اور حل ہے؟

دیکھئے، ہمارے یہاں سیاحوں کے لیے تمام انتظامات ہیں۔ ہوم اسٹے، ہوٹل وغیرہ ہیں اوور ٹورزم کی کوئی بات نہیں۔ اور شہروں پر دباؤ کا آفت سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی کبھی سیاح زیادہ آتے ہیں، گاڑیاں ضرورت سے زیادہ آتی ہیں، ٹریفک کا مسئلہ ہے، حکومت اس نظام کو ٹھیک کر رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب تک آنے والے 1.50 کروڑ سیاحوں کی تعداد بڑھ کر پانچ کروڑ ہو جائے، اس کے لیے ہم کنسلٹنسی کر رہے ہیں۔


سوال: ایک خیال یہ بھی ہے کہ شملہ یا منالی جیسے نئے شہر آباد کئے جائیں، آپ کی حکومت اس سمت میں کیا کر رہی ہے؟

آپ نے صحیح کہا، ہماری حکومت اس سمت میں کام کر رہی ہے۔ ہم نے بات کی ہے کہ نئے سیاحتی مقامات بنائے جائیں، نئے شہر بنائے جائیں۔ ایک جاکھیا دیوی جگہ ہے جہاں ایک نیا شہر قائم کرنے کا خیال ہے۔ پالن پور میں ایک نیا شہر قائم کرنے کا خیال ہے۔ ہماچل میں 75 سالوں میں کوئی نیا شہر نہیں بنایا گیا ہے، ہم اس پر غور کر رہے ہیں۔ جہاں پانی ملے گا وہاں نیا شہر بن سکتا ہے۔

سوال: آفت کے بعد آپ نے ایک خصوصی امدادی فنڈ بنایا۔ اس کے ذریعے لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ آپ نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے اس فنڈ میں 51 لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ کیا دوسروں نے ترغیب حاصل کی؟

دیکھیں، چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنی گلک لے کر امدادی فنڈ میں چندہ دینے آ گئے۔ یہ پیسوں کا سوال نہیں تھا، احساسات اور جذبات کا سوال تھا۔ میرا رجحان کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ اس لیے میں نے بھی اپنی پوری بچت سے 51 لاکھ روپے ریلیف فنڈ میں عطیہ کیے، میں نے کورونا کے دور میں بھی عطیہ کیا تھا۔ میرے پاس 51 لاکھ دینے کے بعد صرف 17 ہزار روپے رہ گئے لیکن میں پریشان نہیں تھا۔ ہمیں تو اگلے مہینے تنخواہ مل جاتی ہے اور اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔ کورونا اس وقت بی جے پی کی حکومت تھی۔ اس وقت میں نے 19 لاکھ روپے عطیہ کیے تھے اور اس اقدام کی وجہ سے ہمارے ریلیف فنڈ میں تاریخی تقریباً 200 کروڑ روپے کی رقم جمع ہوئی۔

سوال: آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آپ ہماچل کو ہندوستان کا سیاحتی دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ یہ موجودہ انفراسٹرکچر سے ممکن ہے؟ اس کے لیے کیا کام کیا جا رہا ہے، جیسے ہوائی رابطہ وغیرہ؟

دیکھئے، میں نے کہا تھا کہ ہماچل پردیش شمالی ہندوستان کے پھیپھڑوں کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کے 68 فیصد فارسٹ کور ہے اور اس فارسٹ کور کا ہمیں کچھ نہیں ملتا، مرکزی حکومت کو بھی اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ وفاقی ڈھانچہ، ریاستی حکومتیں جو اپنے جنگلات کا تحفظ کرتی ہیں، نئے درخت لگاتی ہیں، ماحول کو بچاتی ہیں، انہیں اس کے لیے کچھ معاوضہ ملنا چاہیے۔ اس نقطہ نظر سے میں نے یہ کہا تھا، جہاں تک سیاحتی دارالحکومت کا تعلق ہے، ہم کانگڑا کو سیاحتی دارالحکومت بنانے جا رہے ہیں لیکن اس وقت یہ بہت مشکل ہے۔

سوال: سیاست سے جڑا ایک اور سوال، انڈا اتحاد قائم ہو چکا ہے۔ پوری اپوزیشن متحد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کا ردعمل مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے ہے۔ آپ کا کہنا چائیں گے؟

دیکھئے جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جو اتحاد بنا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہے۔ اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں کہ کانگریس سب سے بڑی پارٹی ان کی قیادت میں اتحاد کو آگے بڑھنا چاہیے، ورنہ وہ علاقائی پارٹیوں کو اسی طرح ہراساں کریں گے۔ کانگریس کے نظریات کے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر راہل گاندھی کو قیادت سونپی جائے اور یہ کہا جانا چاہئے کہ وہ اس اتحاد کی قیادت کریں گے۔ یہ بات یقینی ہے کہ بی جے پی اب اقتدار میں نہیں آئے گی۔


سوال: آپ کی حکومت دسمبر میں ایک سال مکمل کر رہی ہے، آفت میں کیے گئے کام کے علاوہ، آپ ایک سال کی کامیابی کے طور پر کیا کہنا چاہیں گے؟

بہت سے محاذوں پر تبدیلیاں آئی ہیں، ہم نے بہت سی چیزیں بدلی ہیں۔ ہم نے عوام کا اعتماد جیتا ہے اور ہم اسے جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لوگ ہماری باتوں پر یقین کرتے ہیں کیونکہ ہم نے کام کر کے دکھایا ہے اور کرپشن پر لگام لگائی ہے۔ تمام محکموں کے نظام میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، جہاں کام ہونے میں مہینوں لگتے تھے، ہم نے 20 دن میں کام مکمل کرنے کے انتظامات کیے ہیں۔ بہت سی چیزیں ہوئی ہیں اور بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ صحت کے شعبے میں ہم کافی کام کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔