ہماچل پردیش: شملہ واقع سنجولی مسجد تنازعہ پر آج کمشنر کورٹ میں پیش کی گئیں اہم دلیلیں، آئندہ سماعت 5 اکتوبر کو

آج سماعت میں شملہ کے مقامی شہریوں کی طرف سے کمشنر کورٹ میں درخواست دی گئی کہ مسجد معاملہ میں انھیں بھی فریق بنایا جائے، علاوہ ازیں نے کارپوریشن کو حکم دیا کہ وہ تعمیر سے متعلق رپورٹ تیار کریں۔

<div class="paragraphs"><p>شملہ واقع سنجولی مسجد، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

شملہ واقع سنجولی مسجد، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

ہماچل پردیش میں شملہ واقع سنجولی مسجد کا تنازعہ اس وقت کافی بڑھا ہوا ہے۔ معاملہ عدالت میں ہے، لیکن دو طبقات کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے۔ اس درمیان آج اس متنازعہ مسجد معاملہ میں کمشنر کورٹ میں سماعت ہوئی جس میں اہم دلیلیں پیش کی گئیں۔ مقامی لوگوں کی طرف سے مسجد کی ناجائز تعمیرات کو لے کر باتیں رکھی گئیں، جبکہ مسجد کمیٹی نے اپنی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسجد ناجائز زمین پر نہیں بلکہ وقف کی زمین پر تعمیر ہوئی ہے۔

کچھ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سماعت کے دوران مسجد کمیٹی کے فریق لطیف مسجد تعمیر سے متعلق ضروری ریکارڈ پیش نہیں کر پائے اور وہ یہ بھی نہیں بتا پائے کہ مسجد تعمیر کے لیے پیسہ کہاں سے آیا اور کس اکاؤنٹ میں پیسہ آیا۔ اس تعلق سے عدالت نے تفصیل جاننے کی کوشش کی۔ اب اس معاملے میں آئندہ سماعت کے لیے 5 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔


آج کی سماعت میں شملہ کے مقامی شہریوں کی طرف سے کمشنر کورٹ میں درخواست دی گئی کہ مسجد معاملے کی سماعت میں انھیں بھی فریق بنایا جائے۔ علاوہ ازیں عدالت نے کارپوریشن کے ’جے ای‘ (جونیئر انجینئر) کو حکم دیا ہے کہ وہ موقع پر تعمیرات سے متعلق رپورٹ تیار کریں۔

سماعت کے دوران ہندو تنظیموں کے وکیل نے بتایا ’’14 سال بعد، عام لوگوں کو مجبوراً عدالت میں پارٹی بننا پڑا ہے۔ کسی نے اس زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیرات کر لی تھیں۔ اس کے بعد قف بورڈ سوا سال تک غائب رہا۔ اب اچانک قف بورڈ کہتا ہے کہ یہ مسجد ان کی ہے لیکن وہ اس کا کوئی قانونی ثبوت پیش نہیں کر پائے۔ ہمارے کاغذات کے مطابق، اس جگہ پر بنائی گئی مسجد غیر قانونی ہے۔ ہم نے اپنی 20 صفحات کی درخواست میں کسی مذہب کا ذکر نہیں کیا، بلکہ صرف غیر قانونی تعمیرات کی بات کی ہے۔‘‘


دوسری طرف وقف بورڈ کے وکیل بھوپ سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ جے ای کی رپورٹ کی جانچ پڑتال کے بعد وہ اپنا جواب داخل کریں گے۔ وقف بورڈ کے اسٹیٹ آفیسر قطب الدین نے بھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے ہفتہ کے روز عدالت میں اپنا جواب پیش کر دیا ہے، جیسا کہ عدالت نے ان سے طلب کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق 1947 سے لے کر آج تک وقف بورڈ اس جائیداد کا مالک ہے اور جس زمین پر مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ ہماچل پردیش حکومت کی نہیں بلکہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 کے بعد جو بالائی منزلیں تعمیر کی گئی ہیں وہ مسجد کمیٹی اور بلدیہ کے بیچ کا معاملہ ہے اور اس سے وقف بورڈ کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مسجد کا انتظام و انصرام وقف بورڈ کی دیکھ ریکھ میں ہوتا ہے۔ لیکن جب مسجد تعمیر سے متعلق ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کی بات ہوئی تو وقف بورڈ کے وکیل ایسا نہیں کر پائے۔ وہ یہ ثابت بھی نہیں کر پائے کہ مسجد میں کی تعمیر غیر قانونی نہیں ہے۔ مسجد تنازعہ کے تعلق سے شملہ کے میونسپل کمشنر بھوپیندر اتری کا کہنا ہے کہ مسجد کی دو منزلیں ناجائز طریقے سے تعمیر ہوئی ہیں۔ عدالت میں مسجد کے تعلق سے یہ تنازعہ 2010 سے چل رہا ہے جس پر اب تک 44 بار سماعتیں ہو چکی ہیں۔ جانکاری کے مطابق اب تک مسجد کو 34 بار نوٹس بھیجا گیا، لیکن مبینہ ناجائز تعمیرات اس کے باوجود بھی جاری ہیں۔ پہلے یہ منزل ایک منزلہ تھی، لیکن اب یہ 5 منزلہ ہو چکی ہے۔


اس مسجد تنازعہ کے بڑھنے پر کانگریس حکومت بھی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس اعلیٰ کمان نے اس معاملے میں راجیو شکلا کو طلب کیا اور ان سے کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے پوری جانکاری حاصل کی۔ راجیو شکلا نے بتایا کہ فی الحال علاقہ میں امن کا ماحول ہے۔ دونوں گروپوں کو بیان بازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ جب معاملہ عدالت میں ہے تو عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ جو بھی فیصلہ عدالت کرے گی، اسے سب کو ماننا ہوگا۔ کانگریس نے اس معاملے کو پوری طرح سے عدالت کے اوپر چھوڑ دیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ 30 اگست کو شملہ کے ملیانا علاقہ میں مار پیٹ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جو مسجد تنازعہ تک پہنچ گیا۔ ملیانا میں کچھ مسلم نوجوانوں اور ہندو اشخاص کے درمیان مار پیٹ ہوئی تھی۔ اس واقعہ میں 6 افراد کو ملزم بنایا گیا ہے جس میں 2 نابالغ بھی شامل تھے۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ یہ ملزمین مار پیٹ کرنے کے بعد سنجولی واقع مسجد میں جا کر چھپ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان اتراکھنڈ کا ہے، جبکہ باقی 5 نوجوان اتر پردیش کے ہیں۔ اس کے بعد سے ہی سنجولی مسجد تنازعہ نے زور پکڑ لیا ہے۔


اس درمیان سنجولی مسجد کے تنازعے پر مسلم طبقہ اور علماء کی جانب سے مسجد کی موجودہ جگہ پر برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسجد ایک مقدس مقام ہے اور اسے قانونی طریقے سے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ تمام فریقین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مسئلے کو پرامن اور قانونی طریقے سے حل کریں تاکہ امن برقرار رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔