حجاب تنازعہ: قرآن، حدیث، سورۃ... دوسرے دن بھی سپریم کورٹ میں خوب ہوئی بحث، آئندہ سماعت 12 ستمبر کو
وکیل کامت نے کہا کہ بھگوا گمچھا پہننا مذہبی اعتقاد کا فطری مظاہرہ نہیں بلکہ مذہبی کٹر پسندی کا قصداً مظاہرہ ہے، یہ ایسا ہے کہ اگر آپ حجاب پہنو گے تو میں بھی اپنی مذہبی شناخت بچانے کے لیے کچھ پہنوں گا
تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے لیے حجاب پہننے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ لگائی گئی پابندی کے خلاف داخل عرضی پر سپریم کورٹ میں آج دوسرے دن بھی خوب زوردار بحث دیکھنے کو ملی۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے جمعرات کے روز بھی دونوں فریق کی دلیلیں سنیں اور کئی طرح کے سوالات بھی قائم کیے۔ کئی عرضیوں میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج پیش کیا گیا ہے جس پر سپریم کورٹ ایک ساتھ سماعت کر رہا ہے۔ کرناٹک حکومت نے سرکاری اسکولوں و کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی جسے ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں برقرار رکھا تھا۔ سپریم کورٹ میں بحث اس بات کو لے کر ہو رہی ہے کہ کیا حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں؟ یعنی مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟
حجاب پر پابندی کے خلاف داخل عرضی پر اپنی بات رکھتے ہوئے وکلاء ہائی کورٹ کے فیصلے کو آئین کی دفعہ 19(1)، 21 اور 25 کے التزامات کی کسوٹی پر رکھ کر غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں دوسرے دن جرح کی شروعات دیودَت کامت نے کی اور سب سے پہلے انھوں نے عدالت کو ان سوالوں کا جواب دیا جو بدھ کے روز ان سے پوچھے گئے تھے۔ کامت نے کہا کہ پابندیاں نظامِ قانون، اخلاقیات اور صحت اسباب کے لیے ہوتی ہیں۔ ایسے میں اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی کیا نظامِ قانون، اخلاقیات اور صحت اسباب سے لگائی گئی پابندی کے دائرے میں آتی ہے؟ اس طرح کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ کوئی آئینی پابندی ہے۔
کامت نے اپنی دلیل کو مضبوطی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حجاب پہننا یا نہیں پہننا ایک مذہبی اعتقاد کا معاملہ ہے۔ ’لازمی مذہبی اصولوں‘ کا سوال تب اٹھتا ہے جب ریاست اسے لے کر کوئی قانون بناتا ہے اور انھیں مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ تب پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے۔ سبھی مذہبی اصول لازمی نہیں ہو سکتے، لیکن اس کا یہ مطلب قطی نہیں کہ حکومت اس پر پابندی لگا دے۔ یہ تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ نظامِ قانون یا کسی کی صحت کو متاثر نہ کر رہا ہوں۔ کامت نے اپنا اور سینئر ایڈووکیٹ پراسرن کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نمام پہنتا ہوں، وہ بھی نمام پہنتے ہیں۔ یہ لازمی مذہبی اصول بھلے ہی نہ ہوں، لیکن کیا اس سے کورٹ روم کا ڈسپلن ختم ہوتا ہے؟ کیا کوئی انھیں یہ پہننے سے روک سکتا ہے؟‘‘
دیودت کامت نے اپنی دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ ’’ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا سر پر اسکارف باندھنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، تو کل کو کچھ طلبا کہیں گے کہ انھیں بھگوا گمچھا پہننا ہے۔ میرے حساب سے بھگوا گمچھا پہننا اپنے مذہبی اعتقاد کا فطری مظاہرہ نہیں ہے، بلکہ یہ مذہبی کٹر پسندی کا قصداً کیا گیا مظاہرہ ہے۔ یہ ایسا ہے کہ اگر آپ حجاب پہنو گے تو میں اپنی مذہبی شناخت بچانے کے لیے کچھ پہنوں گا۔ آئین کی دفعہ 25 اسے محفوظ نہیں کرتا ہے۔ رودراکش، نمام اور تلک لگانے کو دفعہ 25 تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘‘
حجاب معاملے میں سماعت کے دوران کئی مواقع پر قرآن، حدیث اور سورتوں کے حوالے بھی پیش کیے گئے۔ ایک موقع پر جسٹس ہیمنت گپتا نے وکیل نظام پاشا سے سوال کیا کہ ’’ہم جاننا چاہیں گے کہ قرآن کی کس آیت میں حجاب کو ضروری بتایا گیا ہے؟‘‘ جواب میں نظام پاشا نے کہا کہ ’’قرآن میں خمار لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں حجاب لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔‘‘ اس کے بعد نظام پاشا نے کچھ قرآنی سورتوں کا تذکرہ کیا۔
اس درمیان جسٹس دھولیا نے کہا کہ آپ ہمیں ہائی کورٹ کے فیصلے کے اس حصے کے بارے میں بتائیے جہاں اس پر بحث ہوئی ہے۔ اس سے ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ جواب میں پاشا نے کہا کہ ’’ہائی کورٹ نے ’کوئی مجبوری نہ ہو...‘ آیت کا تذکرہ کیا ہے اور کہا کہ حجاب لازمی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ غلط فہمی ہے۔ جس آیت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ جبراً مذہب تبدیلی کے خلاف ہے۔‘‘ نظام پاشا نے بنچ کو اسلام کے بنیادی ستونوں نماز، روزہ، زکوٰۃ، توحید اور حج کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ یہ اسلام کے لازمی حصے ہیں۔
سپریم کورٹ میں حجاب معاملے پر آج طویل بحث کے بعد آئندہ سماعت 12 ستمبر یعنی پیر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ پیر کی دوپہر 2.00 بجے اس سلسلے میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گی اور وکلاء اپنے دلائل پیش کریں گے۔ ساتھ ہی کچھ ایسے سوالات کے جواب بھی دیں گے جو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے ذریعہ اٹھائے گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔