حجاب تنازعہ: کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے مسلم خواتین ناراض
مسلم خواتین کے ایک گروپ نے بدھ کو کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپنی سخت ناراضگی ظاہر کی جس میں عدالت نے ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھا ہے۔
مسلم خواتین کے ایک گروپ نے بدھ کے روز کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا جس میں عدالت نے ریاست میں تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھا ہے۔ قومی راجدھانی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن خالدہ پروین نے کہا کہ ’’کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا کہ حجاب پہننا اسلام میں ایک ضروری مذہبی روایت نہیں ہے اور اس لیے آئین کی شق 25 کے ذریعہ گارنٹیڈ مذہبی آزادی کے حقوق کے تحت تحفظ کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ سوال ہی نہیں ہے۔‘‘
اس سے قبل کرناٹک ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ نے کلاسز میں حجاب پہننے کی اجازت کے لیے ہدایت دینے والی سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اسکولوں میں وردی کی ہدایت آئینی ہے اور طلبا اس پر اعتراض نہیں کر سکتے۔
بہرحال، پریس کانفرنس میں دیگر خاتون مقررین نے کہا کہ وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے بہت مایوس ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ نہ صرف آئینی قانون میں ایک بری مثال قائم کر رہا ہے بلکہ یہ کرناٹک میں عوامی اداروں میں مسلم خواتین کے خلاف تفریق کی فضا بناتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ حجاب پہننے والی خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ ماحول بناتا ہے، جس سے وہ بھیڑ کے تشدد اور استحصال کے وقت میں کمزور ہو جاتی ہیں۔‘‘
آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے حجاب کی حمایت میں ایک خاتون مقرر نے کہا کہ ’یکسانیت‘ کے پردے میں اور ایک یکساں کلچر کو بنائے رکھتے ہوئے جو فیصلہ لیا گیا ہے وہ مسلم خواتین کے خلاف تفریق کا ایک واضح معاملہ ہے اور ان کی تعلیم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایک ڈاٹا شیئر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تنہا اڈوپی میں 230 سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم سیدھے طور پر عارضی حکم سے متاثر ہوئی ہے اور اب انھیں اپنے تعلیمی سال کا نقصان ہوگا۔
مسلم خواتین نے ایک بیان میں کچھ مطالبات کو الگ سے فہرست بند کیا ہے جنھیں وہ فوراً پورا کرنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے پہلا مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی حکومت کو ایجوکیشن ایکٹ میں ترمیم کرنی چاہیے، تاکہ یہ یقینی ہو سکے کہ متعلقہ افسران کے ذریعہ لازمی وردی مجموعی اور تہذیبی اور مذہبی تنوع کا احترام کرتی ہو۔ اس کے علاوہ مختلف کالجوں کی کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیاں (سی ڈی سی) کو یہ بھی یقینی کرنا چاہیے کہ ان کے ذریعہ مقرر کردہ ڈریس کوڈ یکساں طور سے غیر تفریق آمیز ہو۔
اس کے ساتھ ہی خواتین نے ان اسٹوڈنٹس کے لیے راحت کا مطالبہ کیا جن کا تعلیمی سال کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جن طلبا کا امتحان چھوٹ گیا ہے انھیں دوبارہ امتحان دینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ سب سے اہم مطالبات میں سے مسلم خواتین کا یہ مطالبہ ہے کہ فوراً لڑکیوں کو حجاب پہن کر اپنا امتحان دینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
خواتین نے کہا کہ ’’ہائی کورٹ کا حکم کہیں بھی امتحان دیتے وقت حجاب پہننے پر روک نہیں لگاتا ہے اور یہ صرف سی ڈی سی کے ذریعہ وردی کی سفارش کی اجازت دیتا ہے، جو حجاب کو ممنوع کرتا ہے۔ اگر کوئی نیا ڈریس کوڈ کالجوں کے ذریعہ تحریری امتحان کے لیے پیش کیا جا رہا ہے تو اسے موجودہ سال کے دوران نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ انھوں نے مسلم طالبات یا ان کے کنبہ کو ڈرانے یا پریشان کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف فوراً ایف آئی آر درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔