کوئی مندی نہیں، آٹو سیکٹر کو جی ایس ٹی میں رعایت نہیں ملے گی: سُشیل مودی
ایک جانب آٹو انڈسٹری جی ایس ٹی میں رعایت کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب بی جے پی کے سینئر رہنما اور بہار کے نائب وزیر اعلی سشیل مودی نے کہا ہے کہ ان کو جی ایس ٹی میں کوئی ریاعت نہیں ملے گی۔
مندی کی وجہ سے کار اور دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت میں بھاری گراوٹ دیکھی جا رہی ہے اور اس گراوٹ کو روکنے کے لئے جہاں آٹو انڈسٹری بہت سے مطالبات کر رہی ہے اس میں ان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ 28 فی صد لگنے والے جی ایس ٹی کی شرح کو کم کیا جائے۔ اس درمیان بہار کے نائب وزیر اعلی اور بی جے پی کے سینئر رہنما سشیل مودی نے کہا ہے کہ آٹو سیکٹر میں مندی کے لئے خود آٹو کمپنیاں ذمہ دار ہیں، ان کو جی ایس ٹی میں کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
سشیل مودی نے ایک تقریب میں اقتصادی مندی کے دعووں کو سرے سے خارج کر دیا ہے ویسے انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کچھ سیکٹر میں مندی ہے اور اسے ختم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ 20 تاریخ سے شروع ہونے جا رہی ہے اور میری ایک درجن سے زیادہ ریاست کے وزیر خزانہ سے بات ہوئی ہے، سبھی ریاستیں آٹو، بسکٹ اور دیگر کئی اشیا پر جی ایس ٹی کی شرح کم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس پر تبادلہ خیال کیا ہے، اگر گاڑیوں کی فروخت میں کمی آئی ہے تو اس کی وجہ جی ایس ٹی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی لاگو کیے ہوئے ڈھائی سال ہو گئے ہیں اور اب جی ایس ٹی میں کمی کیے جانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ کم کرنے سے 45 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔
واضح رہے ماروتی سمیت کئی کار بنانے والی کمپنیوں نے جی ایس ٹی شرح میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے الیکٹرک کاروں کی طرح اور ہائی برڈ اور سی این جی کاروں پر جی ایس ٹی کی چھوٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے ہائی بڑد اور سی این جی کاروں پر 28 فی صد جی ایس ٹی لاگو ہوتا ہے۔ سشیل مودی نے کہا ہے کہ ’’گاڑیوں کی فروخت میں گراوٹ کی وجہ بی ایس 6 بھی ہے، انشورینس ایک سال کے بجائے پانچ سال کا ہو گیا ہے، الیکٹرک گاڑیاں آئیں اور اب فائنانس کرنے میں سختی ہو رہی ہے، یہ مندی عارضی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عجیب بات ہے، کہا جا رہا ہے کہ پانچ روپے کے بسکٹ کی بکری کم ہو گئی ہے۔ ملک میں کارپوریٹ لابی ایک طرح سے دباؤ بناتی ہیں تاکہ انہیں ٹیکس میں کچھ چھوٹ مل سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Sep 2019, 4:10 PM