’میری معصوم بچی کے ساتھ انصاف نہیں ہوا‘
نربھیا کے قصورواروں کو پھانسی دیے جانے کے بعد کٹھوعہ عصمت دری متاثرہ کے والد نے عدالت سے کہا کہ ”اب میری بیٹی کے قاتلوں کو بھی پھانسی دے کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔“
سری نگر: دو سال قبل پوری دنیا کو جھنجھوڑنے والے کٹھوعہ عصمت دری و قتل معاملے کی متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال نے کہا کہ میری معصوم بچی کے ساتھ اب تک انصاف نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر تھوڑا اطمینان ملا کہ نربھیا کے سبھی چار قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ اب میری بیٹی کے قاتلوں کو بھی پھانسی دیکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جانے چاہیے۔
محمد یوسف نے یو این آئی اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہماری پہلے سے ہی فریاد ہے کہ ہماری بیٹی کے قاتلوں کو پھانسی دی جائے۔ میں نے سنا کہ آج صبح پانچ بجے نربھیا کے قاتلوں کو پھانسی دی گئی۔ یہ سن کر مجھے تھوڑا اطمینان ملا۔ تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا تھا کہ "میری معصوم بچی کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ کسی کو پانچ سال تو کسی کو پچیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک ملزم کو چھوڑا گیا اور دوسرے ایک کی ٹرائل ابھی جاری ہے۔ حکومت کی مرضی ہوگی تو میری بچی کے قاتلوں کو بھی پھانسی ہوسکتی ہے۔"
محمد یوسف نے بتایا کہ رسانہ میں اکثریتی طبقہ ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتا ہے اور یہاں تک ان کا پانی تک روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں دو تین مسلم پڑوسی ہیں ہم ان ہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ہم اکثریتی طبقہ کے علاقے میں اپنے مویشی چراتے تھے لیکن انہوں نے وہاں ہمارا داخلہ بند کردیا۔ انہوں نے ہمارا پانی روک دیا۔ وہ ہمیں بہت بری نظر سے دیکھتے ہیں۔
محمد یوسف کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی مقتولہ بچی کے سبھی کپڑے ضرتمندوں کو دے دیے ہیں کیونکہ ان کپڑوں کی طرف دیکھ کر ہمارے دل چھلنی ہوجاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے دو بیٹے ہیں۔ دونوں اپنی بہن کو بہت یاد کرتے ہیں۔ اس کے کپڑے کچھ تھے جو ہم نے ضرورتمندوں کو دے دیے۔ ہم ان کپڑوں کو رکھ نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ ان کو دیکھ کر ہمارے دل چھلنی ہوجاتے تھے۔
کمسن بچی کے والد نے کہا کہ کٹھوعہ معاملہ پوری دنیا تک پہنچنے کے بعد جو پیسے مختلف جگہوں سے آئے تھے ان کا پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اُس وقت لوگوں نے مالی طور پر بہت مدد کی تھی۔ کیرالہ اور سعودی عرب سے پیسے آئے تھے۔ اس پیسے کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ پتہ نہیں بینک منیجر نے وہ پیسے کس کو دیے۔ دلی سے بھیجے گئے کچھ پیسے مجھے ملے جو میں نے وکیلوں کو دیے۔"
واضح رہے کہ کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پٹھان کوٹ ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے گذشتہ برس جون میں کٹھوعہ عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز و سابق سرکاری افسر سانجی رام، پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ کو تاحیات قید کی سزا جبکہ دیگر تین بشمول ایس پی او سریندر کمار، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ جج موصوف نے سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا تھا۔ آٹھواں ملزم جو واقعہ پیش آنے کے وقت نابالغ تھا اور جس نے کمسن بچی پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا تھا، کے خلاف ٹرائل جوینائل کورٹ میں جاری ہے۔
محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل مبین فاروقی نے کیس کے تین کلیدی مجرموں کی سزائے موت اور دیگر تین کی سزاؤں میں مزید اضافے کے لئے نیز کیس کے ایک ملزم کو بری قرار دینے کے خلاف پنجاب - ہریانہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جہاں اس کی سماعت جاری ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے اپنی تحقیقات میں کہا تھا کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گائوں کے کچھ افراد نے عصمت دری کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئی تھیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔