سپریم کورٹ: بابری مسجد پر سماعت تھوڑی دیر میں شروع
سیاسی طور سے حساس بابری مسجد-رام جنم بھومی زمین کے مالکانہ حق کے تنازعہ سے وابستہ کئی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں دوپہر 2 بجے سے سماعت ہوگی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ میں ایودھیا معاملہ کی سماعت شروع ہونے جا رہی ہے۔ سیاسی طور سے حساس بابری مسجد-رام جنم بھومی زمین کے مالکانہ حق کے تنازعہ سے وابستہ کئی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں دوپہر 2 بجے سے سماعت ہوگی۔ چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ اس معاملہ پر سماعت کرے گی اور تمام فریقین کو کورٹ نے دستاویزات سونپ دئے ہیں۔
بابری مسجد کا معاملہ سیاسی اعتبار سے انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، ویسے یہ تنازعہ تقریباً 164 سال پرانا ہے ۔ ہندوستان کے اس پیچیدہ معاملہ کا فیصلہ جلد آتا ہے تو اس کے قومی سیاست پر نمایاں اثر ات پڑیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد: تاریخ در تاریخ کیا کیا ہوا؟
چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ مقدمہ سے وابستہ ترجمہ شدہ 9 ہزار صفحات پر غور کرے گی۔ ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کئے ہوئے 25 برس گزر چکے ہیں اور اب سپریم کورٹ میں اس کی لگاتار سماعت ہوگی۔
بابری مسجد معاملہ کی سماعت 3 ججوں کی خصوصی بنچ کر رہی ہےجس میں چیف جسٹس دیپک مشر ا کے علاوہ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبد النذیر شامل ہیں۔ معاملہ سب سے پہلے مالکانہ حق کا دعویٰ پیش کرنے والے پہلے اپنے دلائل پیش کریں گے اس کے بعد دیگر عرضیوں پر بحث ہوگی۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تین ججوں کی بنچ ہر روز 3 گھنٹوں تک سماعت کرے گی۔ تصور کیا جا رہا ہے کہ 30 دنوں کے بعد یعنی 16 مئی کو موسم گرما کی تعطیلات سے قبل بنچ کی طرف سے فیصلہ محفوظ کر لیا جائے گا۔
گزشتہ سال 3 ججوں کی خصوصی بنچ نے اس معاملہ کی سماعت کی تھی۔ سنی وقف بورڈ کے وکیل کپل سبل نے مطالبہ کیا تھا کہ معاملہ کی سماعت 5 یا 7 ججوں کی بنچ سے 2019 کے عام انتخابات کے بعد کرنی چاہئے کیوں کہ معاملہ سیاسی ہو چکا ہے اور ریکارڈ میں دستاویز ات بھی ادھورے ہیں۔ کپل سبل اور راجیو دھون نے اعتراض کرتے ہوئے سماعت کے بائیکاٹ کرنے کی بات کہی تھی ۔کپل سبل نے کہا تھا کہ رام مندر این ڈی اے کے ایجنڈے میں ہے اور ان کے انتخابی منشور کا حصہ ہے اس لئے 2019 کے بعد ہی اس حوالے سے سماعت ہونی چاہئے۔ اس لئے جولائی 2019 تک سماعت کو ٹال دیا جا نا چاہئے۔ عدالت نے تمام فریقین سے کہا تھا کہ 8 فروری سے سماعت کی تاریخ کو آگے نہیں ٹالی جائے گی۔
اس معاملہ سے منسلک 9 ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات اور 90 ہزار صفحات پر مشتمل شواہد پالی، فارسی، سنسکرت، اردو اور عربی سمیت مختلف زبانوں میں ہیں ۔ سنی وقف بورڈ نے سپریم کورٹ سے ان دستاویزات کا ترجمہ کرائے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔
بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ کے معاملہ میں الہ آباد آئی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 30 ستمبر 2010 کو فیصلہ سنایا تھا۔ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ متنازعہ زمین کو 3 برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جائے ۔ جس جگہ رام للا کی مورتی ہے اسے رام للا کو دیا جائے، سیتا رسوئی اور رام چبوترا نرموہی اکھاڑے کو دئیے جائیں اور پوری زمین کا تیسرا حصہ سنی وقف بورڈ کے حوالہ کیاجائے ۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تمام فریقین کی طرف سے سپریم کورٹ میں خصوصی اجازت عرضی (ایس ایل پی) دائر کی گئی تھی یہ عرضی سپریم کورٹ میں 7 سال سے زیر سماعت ہے۔ معاملہ میں ہندو مہا سبھا، سنی سنٹرل بورڈ سمیت کل 16 فریقین ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔