ہریانہ راجیہ سبھا الیکشن: 18 گھنٹے کی جدوجہد، تناؤ، دھمکی، سب کچھ فلم اسکرپٹ کی طرح، اور آخر میں کھیلا ہو گیا!
ہریانہ میں راجیہ سبھا کی دو سیٹوں کے لیے ہوئے انتخاب میں آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، کھیلا ہو گیا! تقریباً 18 گھنٹے تک تذبذب کی حالت رہی، تناؤ اتنا کہ جیسے جنگ کا میدان ہو۔
ہریانہ میں راجیہ سبھا کی دو سیٹوں کے لیے ہوئے انتخاب میں آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، یعنی کھیلا ہو گیا! تقریباً 18 گھنٹے تک تذبذب کی حالت قائم رہی۔ تناؤ اتنا تھا کہ جیسے جنگ کا میدان ہو۔ برسراقتدار پارٹیوں نے مانو ہر منٹ کا استعمال الیکشن کو متاثر کرنے کے لیے کیا۔ بحث، تصادم، دوسرے سے نمٹ لینے والے انداز میں دھمکی والی زبان کا استعمال کیا گیا۔ کرکٹ کے ’ڈکورتھ لوئس‘ ضابطہ والے انداز میں ہر منٹ پالیسی کو انجام دیا گیا۔ مانو پہلے سے پتہ ہو کہ بارش ہونے والی ہے۔ آخر میں محض 66 ووٹ ویلیو سے کانگریس کے اجئے ماکن کو انتخابی شکست ملی اور بی جے پی کے کرشن لال پنوار اور بی جے پی-جے جے پی حامی آزاد امیدوار کارتیکے شرما کو فاتح قرار دیا گیا۔
ہریانہ میں راجیہ سبھا کی انتخابی تاریخ میں 10 جون کا واقعہ صحت مند جمہوریت کی تاریخ میں ناخوشگوار باب کی طرح ہی لکھا جائے گا۔ صبح 9 بجے سے لے کر رات تقریباً ڈھائی بجے تک چلے عمل میں بی جے پی اور جے جے پی اتحاد اس حملہ آور کے انداز میں نظر آیا مانو وہ انتخاب جیتنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ صبح 9 بجے ووٹنگ شروع ہوتے ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ 9 سے 9.30 بجے کے درمیان ہی کچھ ایسا ہوا کہ پوری فلم کی اسکرپٹ کا اندازہ ہو گیا تھا۔ ووٹنگ شروع ہوتے ہی سب سے پہلے پہنچے کلدیپ بشنوئی نے نفس کی آواز پر ہی ووٹ کرنے کی بات کہہ کر نیوز چینلوں کے لیے بریکنگ خبر دے دی تھی۔ اس کے بعد کانگریس کے بی بی بترا اور کرن چودھری کے ووٹوں پر مخالفت کچھ اس انداز میں درج کرائی گئی مانو جس موقع کا انتظار برسراقتدار پارٹیوں کو تھا، وہ مل گیا ہے۔ جے جے پی-بی جے پی اور آزاد امیدوار کارتیکے شرما نے ایک ساتھ ہی اسے اٹھایا، جس کے پیچھے پالیسی صاف طور پر دکھائی دی۔ اس کی گونج دہلی تک گئی، جسے بالآخر ریٹرننگ افسر سے لے کر مرکزی انتخابی کمیشن تک نے رد کر دیا۔
کارتیکے شرما کے پولنگ ایجنٹ جے جے پی جنرل سکریٹری دگوجے چوٹالہ نے الزام لگایا کہ ووٹنگ کے دوران کرن چودھری اور بی بی بترا نے کانگریس کے مقرر ایجنٹ کے ساتھ ہی انھیں (دگوجے چوٹالہ) کو بھی اپنے ووٹ دکھائے۔ سبھی حیران اس بات کو لے کر تھے کہ الزام بھی ان اراکین اسمبلی پر لگائے گئے جو اسمبلی میں بھی ہر وقت رول بُک اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کانگریس رکن اسمبلی کرن چودھری نے اسمبلی کے باہر کہا بھی کہ ’’میں نے 7 بار راجیہ سبھا انتخاب کے لیے ووٹنگ کی ہے، میں دگوجے چوٹالہ کو ووٹ دکھاؤں گی کیا؟ دراصل اس طرح کے الزامات سے ان کی مایوسی نظر آتی ہے۔ کانگریس امیدوار اجئے ماکن جیت رہے ہیں، میں نے ووٹ کسی کو نہیں دکھایا۔‘‘ بی بی بترا اور کرن چودھری کے ووٹ پر اعتراض درج کروانے کے ساتھ ہی ہنگامے کی اسکرپٹ لکھی جا چکی تھی۔ اس کے بعد پولنگ روم میں جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا۔ دگوجے چوٹالہ کا پولنگ ایجنٹ کے طور پر بیٹھنے کا طریقہ ٹھیک نہیں تھا۔ ریٹرننگ افسر آر کے ناندل نے ان سے کہا کہ آپ ٹھیک طرح سے بیٹھیں۔ اس پر مشتعل دگوجے چوٹالہ نے کہا کہ آپ مجھے بیٹھنے کا طریقہ سکھائیں گے۔ پھر ناندل نے کہا کہ کانگریس اور بی جے پی کے ایجنٹ جیسے بیٹھے ہیں، آپ بھی ویسے ہی بیٹھیں۔ لیکن وہ تو شان میں گستاخی والے انداز میں مشتعل ہو گئے تھے۔ اسی درمیان کانگریس کے الیکشن ایجنٹ اشوک اروڑا کے کچھ بولنے پر دگوجئے چوٹالہ نے ان سے کہا کہ زیادہ قانون جھاڑنا ہے تو باہر آؤ۔ یہ بھی کچھ ویسا ہی تھا جیسے کوئی باہر نمٹ لینے کی دھمکی دے رہا ہو۔ اس پوری بات چیت میں دگوجئے کی آواز اتنی تیز تھی کہ سبھی سکپکا گئے تھے۔ آر کے ناندل ان سے پھر ٹھیک سے بیٹھنے کی درخواست کرتے نظر آئے۔ ایک افسر، جو بے شک اس دن ریٹرننگ افسر کی ذمہ داری نبھا رہا ہو، اس سے ایک برسراقتدار پارٹی میں بڑا عہدہ سنبھالنے والا عہدیدار دھمکی بھرے انداز میں بات کرے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ افسر کتنے تناؤ میں ہوگا۔ بالآخر کام تو اسے اسی کی حکومت کے تحت کرنا ہے۔ پولنگ روم میں زبردست تناؤ صاف نظر آ رہا تھا۔
اس کے بعد ٹھیک امید کے مطابق معاملہ آگے بڑھتا رہا۔ آزاد امیدوار کارتیکے شرما نے مرکزی انتخابی کمیشن سے ریٹرننگ افسر آر کے ناندل کی شکایت کی۔ کارتیکے نے شکایت میں الزام لگایا کہ ناندل کانگریس کے امیدوار کے حق میں کام کر رہے ہیں۔ بی بی بترا اور کرن چودھری نے اپنے ایجنٹ کے ساتھ ساتھ دوسری پارٹیوں کے ایجنٹ کو بھی بیلٹ پیپر دکھایا۔ انھوں نے آر او ناندل کے سامنے فوراً اعتراض ظاہر کیا، لیکن انھوں نے کارروائی نہیں کی۔ کارتیکے نے ناندل کے خلاف کارروائی اور بی بی بترا اور کرن چودھری کے ووٹ رد کرنے کا مطالبہ کیا۔
بی جے پی انتخابی ایجنٹ گھنشیام داس اروڑا نے بھی ناندل پر الزام عائد کیا۔ گھنشیام داس اروڑا نے بھی ناندل پر ان کی شکایتوں پر غور نہ کرنے اور کانگریس امیدوار کے حق میں کام کرنے کا الزام لگایا۔ بی جے پی نے بھی بی بی بترا اور کرن چودھری کے ووٹ رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ معاملہ کچھ اس طرح چل رہا تھا جیسے اس کی اسکرپٹ پہلے لکھی جا چکی تھی۔ اس درمیان دوپہر میں ماہم سے آزاد رکن اسمبلی بلراج کنڈو سامنے آئے اور اعلان کیا کہ وہ ووٹ نہیں کریں گے۔ کنڈو نے کہا کہ آج یہاں ایک قسم سے منڈی لگی ہوئی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ چل رہی ہے اور اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ میرا ووٹ بکاؤ نہیں ہے۔ میں چودھری دیوی لال کی زمین سے رکن اسمبلی منتخب ہو کر آیا ہوں۔ مجھے نہ کوئی خرید سکتا ہے، نہ ڈرا سکتا ہے۔ بی جے پی-جے جے پی نے کسانوں کی جو حالت کی ہے، میں اسے کبھی نہیں بھلا سکتا۔ اس حکومت کے گھوٹالوں کو کوئی کیسے بھلا سکتا ہے۔ آزاد امیدوار بھی بی جے پی-جے جے پی کا ہی امیدوار ہے۔ اتحادی حکومت نے ریاست میں لاکھوں نوجوانوں کو سڑکوں پر دھکے کھانے کو مجبور کیا، اسے کیسے بھلا سکتا ہوں۔ دوپہر میں ہی بی جے پی ریاستی صدر اوم پرکاش دھنکھڑ اور وزیر داخلہ انل وِز کسی طرح کنڈو کو اپنے حق میں ووٹ دینے کے لیے منانے ان کے گھر جا پہنچے۔ تقریباً 20 منٹ کی بات چیت کے بعد بھی کنڈو نہیں مانے۔
دوپہر میں ہی حکومت کو حمایت دے رہے آزاد رکن اسمبلی رندھیر گولن نے دعویٰ کر دیا کہ کانگریس کے ایک رکن اسمبلی کا ووٹ رد ہوا ہے۔ انھوں نے اس رکن اسمبلی کا نام تو نہیں بتایا، لیکن سوال اٹھ رہے ہیں کہ آزاد رکن اسمبلی کو اس وقت ہی یہ کیسے پتہ تھا کہ ایک کانگریس رکن اسمبلی کا ووٹ رد ہو گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے بھی دوپہر بعد ہی دعویٰ کر دیا تھا کہ ان کے دونوں امیدوار انتخاب جیت رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے چہرے پر نظر آ رہے اعتماد کے بعد ہی کسی ’کھیلا‘ کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ دوپہر بعد 2 بجے تک ہی 90 میں سے 89 اراکین اسمبلی اپنا ووٹ ڈال چکے تھے۔ ایک رکن اسمبلی کنڈو نے ووٹ نہیں ڈالا۔ بالآخر ووٹنگ کا وقت 4 بجے ختم ہونے کے بعد 5 بجے سے شروع ہونے والی ووٹوں کی گنتی چنڈی گڑھ سے لے کر دہلی تک پیش آئے معاملے کے بعد دیر رات تقریباً 12.45 بجے شروع ہو پائی۔ اس کے بعد تقریباً 1.45 گھنٹے چلی ووٹنگ کی گنتی اور ری-کاؤنٹنگ کے ختم ہونے پر تقریباً ڈھائی بجے نتیجہ کی رسمی جانکاری کے طور پر بی جے پی کے کرشن لال پنوار اور آزاد کارتیکے شرما کے کامیاب ہونے کی اطلاع الیکٹورل افسر نے دی۔ حالانکہ آفیشیل ریزلٹ جاری ہونے میں مزید تاخیر ہوئی۔ کانگریس رکن اسمبلی بی بی بترا نے بتایا کہ ہمارے امیدوار اجئے ماکن کو 30 ووٹ ملے تھے، لیکن ایک ووٹ رد ہو گیا جس کی وجہ سے 29 ووٹ رہ گئے۔ کارتیکے دوسری سیٹ کے لیے ’ری-کاؤنٹنگ‘ میں جیتے۔ ری-کاؤنٹنگ میں اجئے ماکن کا ایک ووٹ رد ہو گیا۔ اس پورے واقعہ کا اختتام جیت کی اطلاع کے بعد علی الصبح اسمبلی پہنچے وزیر اعلیٰ منوہر لال کے کلدیپ بشنوئی کے بی جے پی میں استقبال کے اعلان کے ساتھ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں : خدارا جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے...ظفر آغا
اگر ہریانہ میں ہوئے راجیہ سبھا انتخاب کے پورے نتائج پر بات کی جائے تو بی جے پی کے کرشن لال پنوار کو 36 ووٹ حاصل ہوئے۔ پالیسی کے حساب سے 5 آزاد امیدواروں کا ووٹ بھی انھیں ڈلوایا گیا۔ راجیہ سبھا انتخاب کے فارمولے کے مطابق 1 ووٹ کی ویلیو 100 ہوتی ہے۔ 1 ووٹ کانگریس کا رد ہو گیا۔ آزاد رکن اسمبلی بلراج کنڈو نے کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ یعنی ووٹ شمار ہوئے 88، جن کی ووٹ ویلیو ہوئی 8800۔ 36 اراکین اسمبلی کے کرشن لال پنوار کو ووٹ ڈالنے کے حساب سے ان کی ووٹ ویلیو ہوئی 3600۔ مجموعی طور پر 8800 ووٹ کے تیسرے حصے کے حساب سے پنوار کو جیت کے لیے ضرورت تھی 2934 ویلیو کی۔ یعنی ان کو پڑے ووٹوں میں سے 666 ویلیو بچ گئی۔ اجئے ماکن کو ملے 29 ووٹ، جن کی ووٹ ویلیو ہوئی 2900 ووٹ۔ 23 ووٹ ملے تھے کارتیکے شرما کو جن کی ووٹ ویلیو ہوئی 2300۔ 666 ووٹ ویلیو کرشن پنوار کے حصے سے کارتیکے میں جڑنے سے ان کی مجموعی ویلیو 2966 ہو گئی، جس کی وجہ سے اجئے ماکن 66 ویلیو سے انتخاب ہار گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔