ہریانہ اسمبلی انتخابات: امیدواروں کی فہرست جاری ہوتے ہی بی جے پی میں بغاوت کی لہر، دو اہم لیڈران کے استعفے
ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے اگلے ہی دن دو لیڈروں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ رتیا کے رکن اسمبلی کو ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض بتایا جاتا ہے
چنڈی گڑھ: ہریانہ اسمبلی انتخابات کے قریب آتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شدید انتشار اور بغاوت کی لہر نے جنم لیا ہے۔ بی جے پی کی طرف سے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں، جس سے پارٹی کے عہدیداروں اور مقامی لیڈران کی جانب سے بغاوت کے آثار ابھرے ہیں۔
بی جے پی کی جانب سے امیدواروں کی فہرست میں نام شامل نہ ہونے پر رتیا کے موجودہ رکن اسمبلی لکشمن ناپا نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ناپا نے ریاستی صدر موہن لال بڈولی کے نام تحریر کردہ اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ وہ بی جے پی کی ہر ایک ذمہ داری اور ابتدائی رکنیت سے استعفی دے رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ بھگوا پارٹی کی جانب سے ہریانہ کے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے رتیا اسمبلی حلقہ سے سرسا کی اپنی سابق رکن پارلیمنٹ سنیتا دگل کو میدان میں اتارے جانے کے ایک دن بعد لیا گیا ہے۔
دریں اثنا، بی جے پی کے اہم لیڈر سکھوندیر شیوران نے بھی پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سکھویندر بوانی کھیڑا کے سابق ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور فی الحال وہ ہریانہ بی جے پی کسان مورچہ کے صدر کے عہدے پر فائز تھے لیکن جیسے ہی بدھ کو بی جے پی کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا انہوں نے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔
خیال رہے کہ بی جے پی نے بدھ کو ہریانہ اسمبلی انتخابات کے لیے 67 امیدواروں کی اپنی پہلی فہرست جاری کی، جس میں کروکشیتر ضلع کے لاڈوا سے وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی کو میدان میں اتارا گیا۔ سینی، جنہوں نے اس سال مارچ میں منوہر لال کھٹر کی جگہ وزیر اعلیٰ بنایا تھا، فی الحال کرنال سے ایم ایل اے ہیں۔
بی جے پی کی قیادت پر تنقید اور پارٹی کے اندر بغاوت کے آثار نے انتخابات کے تناظر میں پارٹی کے چیلنجز کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈران اور ترجمان اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے کئی اقدامات کر رہے ہیں لیکن ان داخلی اختلافات نے انتخابات کی تیاریوں میں دشواری پیدا کی ہے۔ یہ بغاوت اور استعفے پارٹی کے اندرونی اختلافات اور قیادت پر بڑھتی ہوئی عدم اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا اثر انتخابی مہم اور پارٹی کی کارکردگی پر پڑ سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔