ہریانہ میں عوام کی ہار ہوئی ہے
ہریانہ انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو بی جے پی کو کانگریس سے ایک فیصد سے کم اضافی ووٹ ملے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی سیٹیں 11 زیادہ ہو گئیں جبکہ کانگریس کو سال 2019 کے مقابلے میں 6 سیٹیں زیادہ ملی
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کیا آئے انڈیا اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنا لیا، جس میں سب سے پیش پیش وہ عام آدمی پارٹی رہی جو دو ریاستوں میں بر سر اقتدار ہے لیکن دونوں جگہ اس نے کانگریس کو ہی اقتدار سے بے دخل کیا ہے۔ اس پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال جو فی الحال جیل سے باہر ہیں، انہوں نے کانگریس کی وزیر اعلی شیلا دکشت اور کانگریسی رہنماؤں کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا ہوا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کوشش کی کہ جو بھی بی جے پی حکومت سے پریشان ہیں وہ انڈیا نامی اتحاد میں شامل ہو جائیں جس کے لئے انہوں نے پارٹی کی سطح پر قربانیاں بھی دیں۔ اسی لئے انہوں نے پارٹی کی اندرونی مخالفت اور عام آدمی پارٹی کے کردار کے باوجود لوک سبھا کے لئے انڈیا نامی اتحاد میں اس پارٹی کو شامل کر لیا۔
ہریانہ میں روز اول سے یوٹیوبرس کے ذریعہ یہ کہا جا رہا تھا کہ ریاست میں تبدیلی کی ہوا ہے اور وہاں لوگ بی جے پی سے ناراض ہیں اور کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اس لئے لوگوں نے ان کے تجزیے پر ہی لبیک کہا۔ ہریانہ میں کیونکہ مین اسٹریم میڈیا کی عدم موجودگی، چاہے اس کے پیچھے وہاں کے لوگوں کا ان کے خلاف رویہ ہو یا وہ کسی پالیسی کی وجہ سے وہاں نہیں گئے ہوں سے کوئی دوسری تصویر سامنے ہی نہیں آئی۔ اس یکطرفہ فضا نے جہاں کانگریس مخالف لوگوں کو خاموشی سے اپنی تیاری کرنے کا موقع دیا، وہیں کانگریس میں وزیر اعلی بننے کے لئے دوڑ شروع ہو گئی۔
یو ٹیوبرس جو ان انتخابات میں ریاست کی صورتحال سمجھنے کا واحد ذریعہ بنے انہوں نے بڑے زور شور سے کہا کہ عوام کانگریس کے حق میں نہیں ہے اور کیونکہ وہ بی جے پی کا واحد متبادل نظر آ رہی ہے اس لئے اس تبدیلی کے لئے اور بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے عوام کانگریس کے حق میں ہے۔ ان کا صاف کہنا تھا کہ ہریانہ میں عوام کا مقابلہ بی جے پی سے ہے جس کا فائدہ کانگریس کو ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہریانہ میں عوام کی شکست ہوئی ہے اور بی جے پی نے عوام کے بیچ جو اختلافات تھے ان کو بھنایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہریانہ کے لوگوں کی اس حکمت عملی سے انہیں کتنا فائدہ ہوتا ہے یا صرف بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا۔
ہریانہ کے انتخابی نتائج کا اگر جائزہ لیا جائے تو بی جے پی کو کانگریس کے مقابلے میں ایک فیصد ووٹوں سے کم ہی اضافی ووٹ ملے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی سیٹیں گیارہ زیادہ ہو گئیں جبکہ کانگریس کو سال 2019 کے مقابلے میں 6 سیٹیں زیادہ ملی ہیں اور تقریبا 11 فیصد ووٹ بھی زیادہ ملا ہے یعنی لوگوں کی جو بدلاؤ کی چاہ تھی وہ ان نتائج میں واضح نظر آئی ہے۔
ہریانہ جو دہلی سے ملا ہوا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ دہلی میں کام کرتے ہیں جبکہ ریاست کے دو بڑے حصے یعنی گروگرام اور فریدآباد میں بھی وہ آبادی قیام کرتی ہے جو مرکز میں بی جے پی کی حکومت کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے یہ آبادی ہریانہ میں اثر ڈالتی ہے۔ اس آبادی کی بی جے پی کو اقتدار میں برقرار رکھنے کی چاہت ان لوگوں کی چاہت پر بھاری پڑ گئی جو ہریانہ میں بدلاؤ چاہتے تھے۔ مڈل کلاس جو دہلی میں کام کرتا ہے اور گروگرام و فریدآباد میں رہتا ہے اس کا ہریانہ انتخابات میں اہم کردار رہا کیونکہ یہ وہ ووٹرس ہیں جو کسی بھی حالت میں بی جے پی کی حکومت چاہتے ہیں۔
ہریانہ میں کانگریس کی اس کو کامیابی ہی کہو گے کہ وہاں کے لوگوں میں راہل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وزیر اعظم کی مقبولیت میں اس قدر کمی آئی ہے کہ ان کی ڈیماند نہ کے برابر رہی۔ ہر بڑھتی ہوئی سیاسی پارٹی پر ورکرس کا ذمہ داران پر دباؤ رہتا ہے جس کو عام عوام کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور کچھ ایسا ہی دباؤ کانگریس ذمہ داران اور راہل گاندھی پر بھی ہریانہ میں تھا لیکن کچھ ایک چیزوں کو چھوڑ کر کانگریس کے ذمہ داران نے اس دباؤ کو اچھے طریقے سے جھیلا۔ ہم تبصرے سنی سنائی اور لوگوں کی رائے کی بنیاد پر کرتے ہیں دباؤ کی بنیاد پر نہیں۔
انتخابات کے دوران اکثریت کا کہنا تھا کہ اروند کیجریوال کی رہائی کے پیچھے بی جے پی کا دباؤ ہے اور رہائی سے کچھ دن پہلے ہی اتحاد کی بات چیت سے علیحدہ ہونا اور پھر سب سیٹوں پر انتخابات لڑنا صاف ظاہر کر رہا تھا کہ اس سب سے بی جے پی کو فائدہ اور کانگریس کو نقصان پہنچانا ہے۔ اروند کیجریوال کا رویہ دہلی میں فرقہ وارانہ فساد میں ہی ظاہر ہو گیا تھا۔ کانگریس سمیت ہر سیاسی پارٹی اپنے سیاسی مفاد میں ہی فیصلہ لیتی ہے لیکن آج ہر بی جے پی مخالف سیاسی پارٹی کو کانگریس کی ضرورت ہے۔
جمو کشمیر میں چاہے کانگریس کی اتنی سیٹیں نہ آئی ہوں جتنی آنی چاہئے تھیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جمو و کشمیر کے لوگ بھی راہل کی قیادت پر ایسے ہی یقین کرتے ہیں جیسے ہریانہ، اتر پردیش ، مہاراشٹر وغیرہ میں۔ ہریانہ میں کانگریس کی حکومت نہ بننے کے بعد بہت سے اتحادیوں کو کانگریس کو نیچا دکھا کر اتحاد میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا مقصد ہے لیکن ان کی ہمت نہیں کہ راہل گاندھی کے خلاف کچھ بول دیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔