بلند شہر: دلت خاندان پر ’اعلیٰ ذات‘ کا ظلم، چندرشیکھر کا تحریک چھیڑنے کا اعلان

بلندشہر میں چھیڑخانی کی مخالفت پر دلت خاندان کو کار سے کچلنے کے واقعہ کے بعد علاقہ کا ماحول کشیدہ نظر آ رہا ہے، بھیم آرمی چیف چندرشیکھر نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

بلند شہر میں دلت خاتون سے چھیڑخانی کی مخالفت کرنے پر اعلیٰ ذات نوجوان کی طرف سے گاڑی سے کچل کر دو خواتین کو قتل کرنے اور دو کو زخمی کرنے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ بھیم آرمی کے سربراہ کے سامنے متاثرین نے پولس پر لیپاپوتی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

دلت خاندان کے ساتھ ظلم و ستم کا یہ واقعہ گزشتہ روز پیش آیا تھا، جس کی وجہ سے دلتوں میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی۔ اس دوران جس عورت سے چھیڑخانی کی بات کہی جا ریہ ہے آج اس نے بھیم آرمی چیف کے سامنے مکمل واقعہ بیان کیا۔ چندر شیکھر نے متاثرین کے حق میں تحریک چھیڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پولس نے واقعہ کو کوئی بھی دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی تو بھیم آرمی کی طرف سے بلند شہر میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔


چندر شیکھر سے ملاقات کے دران متاثرین نے بتایا کہ پولس معاملہ کا رخ تبدیل کرنے پر آمادہ ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملزمان چونکہ ٹھاکر برادری سے وابستہ ہیں اس لئے پولس ان کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ متاثرین کا الزام ہے کہ پولس کی تمام کوششیں ایک فریق کے حق میں نظر آ رہی ہیں۔

پیر کی شب تقریباً 11 بجے بلندشہر سے ملحقہ گاؤں چاندپور میں ایک نوجوان نے گاڑی سے ایک دلت خاندان کو ٹکر مار دی، اس واقعہ میں ایک ہی خاندان کی دو خواتین (سنتو دیوی اور اورملا) کی موت ہو گئی جبکہ دو افراد (تربھون اور جتیندر) زخمی ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکر خاندان کی بیٹی کے ساتھ چھیڑخانی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ماری گئی ہے۔ ملزم نکول ٹھاکر متاثرہ خاندان کے پڑوس کا ہی رہنے والا ہے۔


بلندشہر کے جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا وہ کوتوالی دیہات تھانہ علاقہ میں آتا ہے اور شہر کے بے حد نزدیک ہے۔ یہیں ہائی کے نزدیک واقع دلت بستی میں یہ معاملہ پیش آیا۔ واقعہ کے بعد سے علاقہ میں کشیدگی ہے اور دلت طبقہ پولس سے ناراض ہے۔ دلت پولس پر معاملہ کو رفع دفع کرنے کا بھی الزام ہے اور دلتوں کے سڑک جام کرنے کے بعد ان کی دوسری تحریر پر مقدمہ قائم کیا گیا۔

غورطلب ہے کہ واقعہ کے حوالہ سے بلند شہر کے ایس ایس پی این کولانچی نے کہا کہ خاندان کے لوگوں نے ایک معمولی سڑک ایکسیڈنٹ کی اطلاع دی تھی لیکن کچھ گھنٹوں کے بعد انہوں نے تحریر کو تبدیل کر دیا۔ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ حالت نشہ میں تھے، جس کی وجہ سے حادثہ ہو گیا۔ ایس ایس پی کا یہ بھی دعوی ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی چھیڑخانی کا کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ گاڑی سے ٹکر کا واقعہ نظر آ رہا ہے۔


پولس کی اس کہانی کو متاثرین کے اہل خانہ نے خارج کر دیا ہے۔ واقعہ کا مرکز مانی جا رہی خاتون مانسی (تبدیل شدہ نام) کے مطابق ’’پولس کی کہانی جھوٹی ہے۔ وہ ملزمان کا دفاع کرنے کا کام کر رہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے یہاں شادی تھی اور کافی مہمان جمع تھے۔ واقعہ کے دن جے ویر ٹھاکر کا لڑکا نکول میرے پاس آیا اور مجھ سے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ میں نے مزاحمت کی تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر زبردستی کرنے لگا۔ شادی میں آئے ہوئے میرے موسا جی (خالو) نے جب یہ دیکھا تو پوچھا کہ کیا ہوا! میں نے انہیں سب بتا دیا، اس کے بعد موسا جی نے نکول کو دو تھپڑ لگا دئیے۔ نکول اس کے بعد تھوڑی دور کھڑی اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا اور بے حد تیز رفتار سے چلاتے ہوئے اسے ہم سب کے اور چڑھا دی۔ اس کی وجہ سے میری ماں اور موسی (خالا) کی موقع پر ہی موت ہو گئی، جبکہ میرے موسا جی اور میرا بھائی آئی سی میں داخل ہیں۔‘‘

ہلاک شدہ سنتو دیوی کی بہن ہیم لتا کے مطابق پولس ابتدا سے ہی معاملہ کو فع دفع کرنے کی کوشش میں ہے۔ ہیم لتا نے کہا، ’’پولس والے راتو رات پوسٹ مارٹم کر کے صبح چار بجے لاشوں کو ہمارے گھر لے آئے۔ اس کے بعد چپے چپے پر پولس لگا دی گئی۔ اگر یہ عام حادثہ تھا تو انتی بڑی تعداد میں پولس فورس کو تعینات کیوں کیا گیا۔ پولس نے تو ہمارا مقدمہ بھی نہیں لکھا تھا۔ جب سماج ہمارے ساتھ کھڑا ہوا اس کے بعد رپورٹ درج کی گئی۔


ادھر بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد کے بدھ کی صبح یہاں پہنچے کی اطلاع پر مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور کسی طرح سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن چندر شیکھر پھر بھی گاؤں میں پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ متاثرین کو انصاف دلانے میں نااہل ہیں تو دلت اپنے طریقہ سے انصاف طلب کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Jun 2019, 9:10 PM