ہلدوانی معاملہ: ’اگر قبضہ غیر قانونی ہے تو پھر سرکاری عمارتیں کیسے تعمیر ہو گئیں‘، متاثرین اٹھا رہے سوال

جن لوگوں کو گھر خالی کرنے کا نوٹس ملا ہے، وہ بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہ تجاوزات ہے تو پھر ان جگہوں پر سرکاری خزانے سے سرکاری عمارتیں کیسے تعمیر ہوئیں؟

user

قومی آواز بیورو

اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں بنبھول پورہ کے تقریباً 50 ہزار افراد کے سر پر بے گھر ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 4365 عمارتوں کو منہدم کرنے کا فیصلہ گزشتہ دنوں سنایا ہے، اور ریلوے نے اس زمین کو اپنا بتاتے ہوئے سبھی عمارت مالکان کو نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ 7 جنوری تک جگہ خالی کر دیں، ورنہ بلڈوزر سے انہدامی کارروائی شروع کی جائے گی۔ اب اس معاملے میں مشہور و معروف صحافی اجیت انجم کی ایک گراؤنڈ رپورٹ سامنے آئی ہے جس نے ریلوے اور انتظامیہ دونوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

دراصل اجیت انجم بنبھول پورہ کے اندرا نگر علاقہ میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے پورے واقعات کی تفصیل جانی۔ اس گراؤنڈ رپورٹنگ کے دوران پتہ چلا کہ جن 4365 گھروں یعنی عمارتوں کو منہدم کرنے کا حکم صادر ہوا ہے، ان میں کئی سرکاری عمارتیں بھی شامل ہیں۔ اجیت انجم نے اس راجکیہ انٹر کالج کے احاطہ میں کھڑے ہو کر بھی درجنوں افراد سے بات چیت کی جو منہدم کیے جانے والی عمارتوں کی فہرست میں شامل ہے۔ یعنی اگر ریلوے کی انہدامی کارروائی ہوتی ہے تو اس سرکاری عمارت کی بھی خیر نہیں ہے۔ صرف یہی سرکاری انٹر کالج نہیں، بلکہ اس کے علاوہ کچھ دیگر سرکاری تعلیمی ادارے اور سرکاری اسپتال بھی ’غیر قانونی قبضہ‘ والی فہرست میں شامل ہیں۔


متاثرین بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہ تجاوزات ہے تو ایسی عمارتیں سرکاری خزانے سے حکومت نے کیسے کھڑی کر دیں، اور ایسا کیسے ممکن ہوا؟ سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دہائیوں سے جو سرکاری عمارتیں، سرکاری اسکول، مندر، مسجد اور گھر بنے ہوئے ہیں انھیں اچانک توڑنے کا فیصلہ صادر کر دیا گیا؟ اجیت انجم نے گراؤنڈ رپورٹنگ کی جو ویڈیو اپنے آفیشیل یوٹیوب چینل پر ڈالی ہے، اس میں کچھ ایسے لوگ بھی سامنے آئے ہیں جن کے گھر ’پردھان منتری آواس یوجنا‘ کے تحت بنے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ اگر یہ قبضہ کی زمین ہے تو پھر سرکاری منصوبہ کی منظوری کیسے مل گئی؟ محمد زبیر نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاست کا کھیل ہے۔ جب جب انتخاب قریب آتا ہے، اس طرح کا ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جذباتی انداز میں کہتا ہے کہ ’’ہم ہائی کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن کسی بھی قیمت پر یہ گھر چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر انتظامیہ گھر کو منہدم کرتا ہے تو ساتھ ہی ہم بھی یہاں دفن ہو جائیں گے۔‘‘

ریلوے پر لگاتار الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے ایسی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے، جو اس کی ہے ہی نہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر یہ دلیل پیش کی جا رہی ہے کہ ہر جانب ریلوے ٹریک سے 45 سے 50 فیٹ دور تک ریلوے کی زمین ہے، لیکن بنبھول پورہ کی بات کریں تو یہ ریلوے ٹریک سے تقریباً 800 فیٹ دور ہے۔ یعنی بنبھول پورہ کے لوگوں کو غلط طریقے سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔


واضح رہے کہ ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، خواتین اور بچے سڑکوں پر اپنے گھروں کے کاغذات لے کر مظاہرہ کر رہی ہیں، لیکن ان کی حکومت ایک نہیں سن رہی۔ اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہاتھ ہی کھڑے کر دیے ہیں۔ جب اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے اور متاثرین کے مظاہرے کی خبر پھیلی تو کانگریس اور کچھ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نے ان کی حمایت میں آواز بلند کی اور معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ 5 جنوری کو اس معاملے پر سماعت ہونے والی ہے، اور اب سبھی کی نگاہیں سپریم کورٹ پر ہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔