کیا اب’ حج‘ حکومت کے نشانے پر ہے؟

کیا حج ہاؤس پر تالا ریاستی حج کمیٹی کی لاپروائی کا نتیجہ ہے؟ یا عازمین حج کو پریشان کرنے کی کوشش ہے؟ یا پھراین جی ٹی کے اس قدم کے پیچھے سیاست کارفرما ہے؟ ۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

اتر پردیش کے غازی آباد واقع حج ہاؤس پر 21 فروری کو تالا لگ چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی اقلیتی طبقہ ایک بار پھر یہ سوچنے کے لیے مجبور ہو گیا ہے کہ ہندوستان میں کسی نہ کسی بہانے سے اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ حالانکہ این جی ٹی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ’اعلیٰ حضرت حج ہاؤس‘ ہنڈن ندی کے دائرے میں نہیں آتا لیکن اس سے نکلنے والے گندے پانی کا حوالہ دے کر جس طرح حج ہاؤس پر تالا لگایا گیا ہےجس کے سبب ریاست کی عوام میں ایک بے چینی ضرور پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہو گئے ہیں... مثلاً، کیا یہ حج مسافروں کو پریشان کرنے کی کوشش ہے؟ کیا این جی ٹی کے اس قدم کے پیچھے سیاست کارفرما ہے؟ یا پھر حج ہاؤس پر تالا ریاستی حج کمیٹی کی لاپروائی کا نتیجہ ہے؟

اس سلسلے میں جب ’قومی آواز‘ نے فتح پوری مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم سے ان کا نظریہ جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ ’’حج ہاؤس پر سیل سیاسی دباؤ کا نتیجہ ضرور معلوم ہوتا ہے اور این جی ٹی میں اس کو منہدم کرنے کے لیے داخل کی گئی عرضی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مقامی لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ وہاں پر کوئی اجتماع ہو۔ ظاہر سی بات ہے کہ زائرین حج کی بڑی تعداد وہاں جمع ہوتی ہے اور ان کے رشتہ دار بھی آتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہےدباؤ میں آکرسیل کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہو۔‘‘ لیکن ساتھ ہی مفتی مکرم نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر حکومت چاہے تو جلد ہی اس کی سیل کھل جائے گی اور مجھے پوری امید ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔‘‘ انھوں نے مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح اتر پردیش صوبہ حج کمیٹی کی عمارت کو بھگوا رنگ میں رنگنے کے بعد دباؤ پڑتے ہی فوری اثر سے اس کا رنگ تبدیل کیا گیا اسی طرح حج ہاؤس میں لگا تالا بھی جلد ہی ہٹے گا۔ ساتھ ہی مفتی مکرم نے یہ بھی کہا کہ 2019 میں عام انتخابات ہونے ہیں اور مرکزی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ کسی کو ناراض کر ے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی حکمراں ریاستوں میں اکثر اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے مذہبی عقائد کو بھی مجروح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حج ہاؤس پر تالا لگائے جانے کو بھی کچھ لوگ اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مشہور و معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی بھی کچھ ایسا ہی مانتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جس طرح اقلیتی طبقہ کے اوپر مظالم ہو رہے ہیں اور اقلیتی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سلسلہ ابھی رُکنے والا نہیں ہے۔ یوگی حکومت میں جس طرح فساد اور فرقہ واریت میں اضافہ درج کیا گیا ہے، اس سے اتر پردیش کا اقلیتی طبقہ خوفزدہ ہے۔ ان لوگوں کو جہاں موقع ملے گا اقلیتی طبقہ کو وہ پریشان کریں گے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ این جی ٹی نے حج ہاؤس میں سیل لگانے کی جو وجہ بتائی ہے وہ صحیح ہو سکتی ہے، بی جے پی حکومت کو تو بس موقع ملنا چاہیے۔ ذرا بھی تکنیکی خامی ہوتی ہے تو وہ اس کا فائدہ اٹھا کر اقلیتی طبقہ کے خلاف کارروائی کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اقلیتوں کو پریشان کرنا تو ان کے رَگ رَگ میں بسا ہوا ہے۔‘‘

معروف وکیل محمود پراچہ سے جب اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ نے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’’میں اس واقعہ سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوں لیکن ایک بات تو سچ ہے کہ یہ معاملہ این جی ٹی میں تھا اور اس نے اگر ریاستی حج کمیٹی کو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ (ایس ٹی پی) قائم کرنے کے لیے کہا تھا تو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے اس لیے اگر ہنڈن ندی حج ہاؤس کے گندے پانی سے آلودہ ہوتی ہے تو اس کا مناسب انتظام کرنا چاہیے تھا، اور این جی ٹی نےجب کسی ذمہ دار ادارہ کو اس سلسلے میں ہدایت دی تھی تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکم کی تعمیل کرے۔

مودی حکومت میں ملک کے الگ الگ گوشوں سے شر پسند عناصر کے ذریعہ اقلیتی طبقہ کو نشانہ بنانے کی خبریں تو اکثر ملتی ہی رہتی ہیں، جب سے اتر پردیش میں یوگی حکومت برسراقتدار ہوئی ہے بھگوا بریگیڈ کی ہنگامہ آرائی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ موب لنچنگ، فرقہ وارانہ فساد اور مدارس کے خلاف پالیسیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ابھی حج میں کافی وقت ہے اس لیے حج ہاؤس سے سیل ہٹانے کے لیے ضروری کوششیں اب بھی کی جا سکتی ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یوگی حکومت، خصوصاً ریاستی حج کمیٹی پر دباؤ بنایا جائے کہ وہ جلد ضروری اقدام کرے اور اگر کوئی خامی ہے تو اس کو دور کرے۔ کیونکہ حج سے پہلے اگر ’اعلیٰ حضرت حج ہاؤس‘ کا تالا نہیں کھلا تو اتر پردیش کا اقلیتی طبقہ ہی نہیں، پورے ملک کا اقلیتی طبقہ فکرمندی کا شکار ہو جائے گا اور ہندوستان کی جمہوریت کو شبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2018, 5:57 PM