یوگی حکومت اور پولس مستعد ہوتی تو کاس گنج کا فساد ٹل سکتا تھا!

غیر سرکاری تنظیم ’سنکلپ فاؤنڈیشن ‘ کے ایک عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ کاس گنج میں تشدد کا خدشہ تھا اور اس نے یوپی کے وزیر اعلیٰ ، مرکزی وزیر داخلہ اور پولس کو 5 دن پہلے ہی اس سے آگاہ کرا دیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کاس گنج: یوم جمہوریہ کے موقع پر کاس گنج میں پیش آئے تشدد کے واقعہ سے 5 روز قبل ہی ان خدشات سے مرکزی وزیر داخلہ، صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ڈی جی پی کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ کاس گنج سے حاصل شدہ ایک ڈجیٹل ثبوت سے یہ بات سامنے آئی ہے۔ اس انکشاف کے بعد ابھیشیک عرف چندن گپتا نامی شخص کی جان لے لینے والے کاس گنج کے فساد میں حکومت اور پولس انتظامیہ کے کردار پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

مہلوک کے پرانے دوست اپنانام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ ثبوت مہیا کرائے ہیں، انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ نام سامنے آنے پر انہیں اپنے ہی طبقہ کے ساتھ انتظامیہ کے غصہ کا بھی شکار ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ شخص ایک خود کار تنظیم ’سنکلپ فاؤنڈیشن ‘ کا رکن ہے ، اسی فاؤنڈیشن سے چندن گپتا بھی فعال طریقہ سے وابستہ تھا۔ انہوں نے کاس گنج میں ایک خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ ٹوئٹر پر ان کی جانب سے پوسٹ کی گئی پوسٹ کےتعلق سے معلومات دیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور یو پی پولس کے ٹوئٹر ہینڈل کو ٹیگ کرنے کے ساتھ ہی ایس پی کو بھی پیغام بھیجا تھا۔

نوجوان کی طرف سے کئے گئے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ
نوجوان کی طرف سے کئے گئے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ

چھبیس جنوری سے 5 دن پہلے کئے گئے پہلے ٹوئٹ میں ایک فیس بک لنک کے ساتھ @myogiadityanath اور @uppolice کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا گیا تھا’’برائے مہربانی اس معاملہ کو دیکھیں۔ یہ کسی بڑے ہندو ۔مسلم جھگڑے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔‘‘ دوسرے ٹوئٹ میں کچھ فیس بک کمینٹوں کے ساتھ @uppolice اور @uppol کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا گیا ’’برائے مہربانی ان تبصروں کو دیکھیں۔‘‘ جبکہ تیسرے ٹوئٹ میں @rajnathsingh اور @uppolice کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا گیا ’’سر، برائے مہربانی اس معاملہ کو دیکھیں۔ یہاں ہندو-مسلم جھگڑا ہو سکتاہے۔‘‘

چھبیس جنوری کو دوپہر 2 بجے یعنی فساد شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد اس شخص نے اپنے فیس بک صفحہ پر ایک طویل پوسٹ ڈالی جس میں اس کے 8000 کے قریب فالورس ہیں۔ انہوں نے لکھا:

’’میں نے کاس گنج میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد سے پہلے ہی خدشات ظاہر کر دئیے تھے۔ میں نے اس کے تعلق سے وزیر اعلیٰ، مرکزی وزیر داخل، یوپی پولس اور ضلع کے آئی پی ایس افسر کو ٹوئٹ کر کے معلومات دیں تھی اور ان سے اس پر دھیان دینے کو کہا تھا۔ کسی نے میری طرف سے دی گئیں اطلاعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ، آخر یہ سچ ثابت ہوئے ، نتیجہ کاس گنج میں فساد پھوٹ پڑے ، اس کے لئے انتظامیہ پوری طرح سے ذمہ دار ہے۔‘‘

یوپی پولس ، پوپی کے وزیر اعلیٰ او ر راج ناتھ سنگھ کو کئے گئے ٹوئٹ کے اسکرین شاٹ کے ساتھ یہ فیس بک پوسٹ ابھی تک موجود ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس پوسٹ کو بالخصوص کاس گنج کے نوجوانوں کی طرف سے 51 دفعہ شیئر بھی کیا گیا ہے۔ اور اس تنبیہ کے بارے میں نہ صرف شہر کے لوگوں کو اچھی طرح خبر تھی بلکہ ان لوگوں کو بھی خبر ہے جو برسوں پہلے کاس گنج کو چھوڑ گئے ہیں اور اس وقت دہلی اور دیگر جگہ مقیم ہیں۔

نوجوان کی طرف سے کئے گئے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ
نوجوان کی طرف سے کئے گئے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ

یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ جب 29 جنوری کو مہلوک چندن گپتا کے والد کو 20 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کے لئے ضلع مجسٹریٹ مین بازار کے وسط میں واقع شوالیہ گلی میں ان کی رہائش پر پہنچے تو انہیں تاجر طبقہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ صورت حال اس وقت سیاسی مخالفت میں تبدیل ہو گئی جب ’یوگی مردہ باد ‘ کے نعرے لگنے شروع ہو گئے۔ یہ احتجاج مار پیٹ میں بھی تبدیل ہو سکتا تھا لیکن فوراً ہی آر اے ایف کی نفری کو طلب کر لیا گیا جس نے مین بازار کامکمل طور پر محاصرہ کر لیا۔ تاجر طبقہ لڑکے کی موت سے ناراض ہے کیوں کہ ان لوگوں کو چند ن کے دوست کی طرف سے ضلع انتظامیہ اور یو پی حکومت کو جاری کی گئی تنبیہ کا علم ہے اور وہ لوگ سیدھے طور پر اس موت کے لئے انتظامیہ کو ذمہ دارمانتے ہیں۔

فیس بک پر اشتعال انگیز باتیں لکھی جا رہی تھیں اور ایک دوسرے کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔ اس حوالہ سے ٹوائٹر پر آگاہ کرنے والےشخص کا کہنا ہے ’’ شروع میں مجھے لگا کہ یہ لڑکے کچھ غلط نہیں کریں گے لیکن ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطہ میں نے انتظامیہ کو آگاہ کر دیا تھا۔ ‘‘

انہوں نے کہا کہ ’سنکلپ گاؤنڈیشن ‘ کا عہدیدار ہونے کے باوجود وہ ترنگا یاترا میں شامل نہیں ہوئے ۔ انہوں نے کہا ’’ خدشہ کے ساتھ میں نے انہیں پیشگی مبارک باد دی اور یاترا میں شامل نہ ہو پانے کےلئے معافی مانگ لی کیونکہ مجھے کسی کام سے جانا تھا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔