گیانواپی معاملہ: ہندو فریق کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی سے مانگا جواب، آئندہ سماعت 17 دسمبر کو

سپریم کورٹ نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ساتھ ساتھ اے ایس آئی کو بھی نوٹس جاری کیا ہے، ہندو فریق کی عرضی میں گیانواپی مسجد کے وضوخانہ کا اے ایس آئی سے سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>گیانواپی مسجد، سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

گیانواپی مسجد، سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

گیانواپی مسجد معاملہ میں ہندو فریق کی ایک عرضی پر آج سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے مسجد کمیٹی کو نوٹس جاری کیا ہے۔ ہندو فریق کی عرضی پر عدالت عظمیٰ نے مسجد کمیٹی سے دو ہفتہ میں جواب طلب کیا ہے۔ ہندو فریق نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ 1993 تک ہندو طبقہ کے لوگ سیل بند علاقہ میں پوجا کرتے تھے، جبکہ مسلم طبقہ سیل بند علاقہ کو وضو خانہ بتاتا ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت کے لیے 17 دسمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

ہندو فریق نے مسجد کے اندر سپریم کورٹ کے ذریعہ سیل بند کیے گئے علاقہ ’وضو خانہ‘ کا اے ایس آئی سروے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ قبل میں جب اس جگہ کا اے ایس آئی سروے کیا گیا تھا تو ایک ایسا ڈھانچہ سامنے آیا تھا جسے ہندو فریق ’شیو لنگ‘ کہہ رہا ہے، جبکہ مسلم فریق نے اسے فوارہ بتایا ہے۔ بہرحال، ہندو فریق کی اس عرضی پر سپریم کورٹ نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ساتھ ساتھ اے ایس آئی کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ گیانواپی مسجد احاطہ میں ویڈیوگرافی سروے کے دوران ایک شیولنگ ملا تھا۔


سپریم کورٹ نے آج اس عرضی پر بھی سماعت کی جس میں کاشی وشوناتھ مندر-گیانواپی مسجد تنازعہ سے متعلق 15 زیر التوا معاملوں کو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاکہ ان پر ایک ساتھ سماعت ہو سکے۔ موجودہ وقت میں وارانسی ضلع جج کی عدالت میں 9 معاملے اور سول جج سینئر ڈویژن، وارانسی کی عدالت میں 6 معاملے چل رہے ہیں۔ سینئر وکیل شیام دیوان نے کہا کہ ہم نے درخواست کو فہرست بند کرنے کے لیے ایک خط پیش کیا تھا۔ بورڈ پر جو فہرست بند کیا گیا ہے وہ ہماری گزارش کے مطابق ہے۔

اس درمیان سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ ہم نے ایک درخواست کی تھی اور ہمیں ضلع عدالت میں جانے کے لیے کہا گیا تھا۔ جسٹس کانت نے کہا کہ ہاں، ایک عدالتی حکم کے ذریعہ سے اہم معاملہ ضلع جج کو سونپا گیا تھا، اس لیے انھیں فیصلہ لینا ہوگا۔ اس معاملے میں سینئر وکیل دیوان نے کہا کہ اس سے متضاد حکم آئیں گے۔ ہم جو مشورہ دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کے لیے ایک مناسب معاملہ ہوگا تاکہ اسے تین ججوں کی بنچ سن سکے اور فیصلہ لیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔