کہیں الٹا نہ پڑ جائے گوجروں کو خوش کرنے کا داؤ، یوگی کے پروگرام سے پہلے گوجروں-راجپوتوں میں ’مہر بھوج‘ پر مہابھارت
مغربی اتر پردیش میں گوجروں کو خوش کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ یوگی 22 ستمبر کو نوئیڈا آ کر مہر بھوج کے مجسمہ کی رونمائی کرنے والے ہیں، لیکن اس سے پہلے ہی گوجروں اور راجپوتوں میں مہابھارت شروع ہو گئی ہے۔
کسان تحریک اور دوسرے ایشوز پر جاٹوں کی زبردست ناراضگی کا سامنا کر رہی بی جے پی کو مغربی اتر پردیش میں نیا داؤ چلنا بھاری پڑ سکتا ہے۔ بی جے پی نے جاٹوں کی ناراضگی کا ازالہ کرنے کے لیے گوجروں کو خوش کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش میں پہلے راجپوتوں اور پھر گوجروں کی بھی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی گوجروں اور راجپوتوں کے درمیان مہابھارت بھی شروع ہو گئی ہے۔
دراصل یوگی آدتیہ ناتھ 22 ستمبر کو گریٹر نوئیڈا کے دادری واقع سمراٹ مہر بھوج کے مجسمہ کی رونمائی کرنے والے ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ پروگرام طے ہے اور پورے علاقے میں مہر بھوج کی تصویریں لگائی گئی ہیں۔ لیکن ان تصویروں میں مہر بھوج کو گوجر سمراٹ بتایا گیا ہے۔ بس اسی بات کو لے کر ہنگامہ برپا ہے۔
اتر پردیش کی سیاست میں مہر بھوج سے محبت کے پیچھے ایک پوری داستان ہے۔ یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کسان تحریک کے سبب مغربی اتر پردیش میں بی جے پی بہت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ چونکہ اس علاقے کے بیشتر کسان جاٹ طبقہ سے آتے ہیں، اور ان کی ناراضگی بھی بی جے پی سے واضح ہے۔ اس کے علاوہ دیگر طبقات بھی بی جے پی کے خلاف کھل کر میدان میں ہیں۔ ایسے میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو اس علاقے سے کافی نقصان ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
گزشتہ انتخاب کی بات کریں تو 2017 کے اسمبلی انتخاب میں جاٹ اور دیگر طبقات کی حمایت بی جے پی کو حاصل ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے بڑی اکثریت سے یو پی میں حکومت بنائی تھی۔ لیکن اب بی جے پی اس بات کو لے کر کافی پریشان ہے کہ کسان تحریک سے ہو رہے نقصان کا ازالہ کیسے ہو؟
اس کے لیے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی نے نئے راستے تلاش کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ اسی عمل میں بی جے پی نے مغربی اتر پردیش میں گوجروں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گوجروں کو خوش کرنے کے لیے یوگی 22 ستمبر کو نوئیڈا کے گوجر اکثریتی علاقہ دادری اسمبلی حلقہ میں گوجر سمراٹ مہر بھوج کے مجسمہ کی رونمائی کرنے کے لیے پہنچنے والے ہیں۔ جہاں تک یاد آتا ہے، اپنے پورے دور میں یوگی کا یہ پہلا گوجر اکثریتی علاقہ کا دورہ ہوگا۔ لیکن اس کے سیاسی فائدے ملنے سے پہلے ہی علاقے میں گوجر طبقہ اور راجپوت طبقہ کے درمیان تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنازعہ اس قدر بڑھ گیا کہ کئی لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر تک کرنی پڑ گئی۔
جیسے ہی دادری کے مہر بھوج ڈگری کالج میں گوجر سمراٹ مہر بھوج کے مجسمہ کی رونمائی کا پروگرام بنا تو راجپوتوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ راجپوتوں کا کہنا ہے کہ مہر بھوج گوجر طبقہ سے نہیں بلکہ راجپوت نسل سے ہیں۔ ناراض راجپوتوں نے ان ہورڈنگز اور پوسٹروں کو بھی پھاڑ دیا جن پر مہر بھوج کے نام کے آگے گوجر سمراٹ لکھا تھا۔ حالات بگڑتے ہوئے دیکھ کر دادری رکن اسمبلی تیج پال ناگر کو ثالثی کے لیے آگے آنا پڑا۔ اس کے بعد مہر بھوج کے دوسرے بورڈ اور ہورڈنگ لگائے گئے۔ لیکن نئے ہورڈنگ اور پوسٹرس میں مہر بھوج کے نام کے آگے گوجر سمراٹ نہیں لکھا تھا۔ اس عمل سے گوجر طبقہ ناراض ہو گیا۔ علاقے کے گوجروں نے جگہ جگہ پنچایت کر کے مخالفت شروع کر دی۔ دادری رکن اسمبلی کو پھر کہنا پڑا کہ مہر بھوج گوجر طبقہ سے ہی ہیں۔ حالانکہ ایک دن قبل ہی گوجر اور راجپوتوں کے درمیان نمائشی سمجھوتہ تو ہو گیا ہے، لیکن کشیدگی برقرار ہے۔ گوجروں میں ناراضگی اس بات کو لے کر زیادہ ہے کہ جب تنازعہ ہو رہا تھا تو پولیس اور انتظامیہ نے گوجروں کے ساتھ غیر ضروری سختی کی۔
غور طلب ہے کہ مغربی اتر پردیش میں گوجر طبقہ کافی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ نوئیڈا، غازی آباد، میرٹھ، سہارنپور، کیرانہ، بجنور، سنبھل وغیرہ اضلاع کی تقریباً 25 سیٹوں پر گوجر طبقہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں اسی علاقے سے بی جے پی کے پانچ گوجر طبقہ کے لوگوں نے جیت حاصل کی تھی۔ ان میں دادری رکن اسمبلی تیج پال ناگر کے ساتھ نند کشور گوجر، پردیپ چودھری، اوتار سنگھ بھڈانا، سومیندر تومر شامل تھے۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے گوجر طبقہ سے ہی اشوک کٹیار کو ایم ایل سی بھی بنایا اور انھیں اتر پردیش حکومت میں وزیر بھی بنایا۔ علاوہ ازیں کبھی سماجوادی پارٹی میں رہے علاقے کے بڑے گوجر لیڈر سریندر ناگر کو بھی بی جے پی نے راجیہ سبھا بھیجا تھا۔ وہیں ضلع پنچایت صدر میں بھی گوجر طبقہ کو شراکت داری دی گئی ہے۔
مغربی اتر پردیش میں بی جے پی راجپوت (ٹھاکر)، برہمن، سینی، والمیکی وغیرہ ذاتوں کو اپنا کٹر ووٹر مانتی رہی ہے، حالانکہ گزشتہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں جاٹ اور گوجر نے بھی بی جے پی کی حمایت کی تھی۔ جاٹ طبقہ تو کسان تحریک کے سبب کھل کر بی جے پی سے ناراضگی ظاہر کر چکا ہے، لیکن گوجروں نے ابھی اپنے پتّے نہیں کھولے تھے۔ ایسے میں مہر بھوج کے نام پر پیدا ہوئی تلخی بی جے پی کے لیے فکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ گوجر طبقہ کی ایک بڑی آبادی کسان ہے جن کی حمایت کسان تحریک کو حاصل ہے۔ کسان تحریک کے وقت کئی بار علاقے میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔