بندوق مسئلہ کشمیر کا حل نہیں: عمر عبداللہ
عمر عبداللہ نے کہا، ’’انہیں سمجھنا ہوگا کہ کشمیر بندوق کا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ ایک ملی ٹینٹ کو مارو گے تو دوسرا پیدا ہوگا۔ کب تک مارتے رہو گے؟ کتنوں کو مارو گے؟‘‘
سرینگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ نئی دہلی میں بیٹھے لوگوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دہلی میں بیٹھے ڈاکٹر کشمیر کو مسئلہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ کشمیر کو بندوق کا مسئلہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ کشمیر بندوق کا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ ایک ملی ٹینٹ کو مارو گے تو دوسرا پیدا ہوگا۔ کب تک مارتے رہو گے؟ کتنوں کو مارو گے؟
عمر عبداللہ نے کہا کہ مقامی سطح پر جنگجویت میں تیزی کے لئے آپ صرف پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ پاکستان نے جموں وکشمیر میں حالات بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرکے ان حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ٹی وی چینل نیوز 18 اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں بیٹھے لوگ جموں وکشمیر کو صرف اور صرف بندوق کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 'آپ کو ماننا ہوگا کہ (کشمیر ایک سیاسی) مسئلہ ہے۔ ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ دہلی میں کئی سارے ایسے لوگ ہیں جو یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہاں مسئلہ ہے۔ وہ جموں وکشمیر کو صرف اور صرف بندوق کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں بندوق ہے اور اس کو ہم بندوق کا استعمال کرکے ختم کریں گے۔ بنیادی طور پر جموں وکشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ بندوق میں تیزی اس لئے آئی کیونکہ جموں وکشمیر کے ساتھ جیسا برتاﺅ ہونا چاہیے، ویسا برتاﺅ نہیں ہوا۔ جس کا ہم نے خمیازہ بھگتا'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ دہلی میں بیٹھے لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ کشمیر بندوق کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا 'بندوق سے اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔ ایک ملی ٹینٹ مارو گے تو دوسرا ملی ٹینٹ پیدا ہوگا۔ کب تک مارتے رہو گے؟ کتنوں کو مارو گے؟ آخر کار آپ کو مسئلے کی جڑ تک جانا ہوگا۔ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کیوں نوجوان بندوق اٹھا رہے ہیں۔ آپ پہلے کہتے تھے یہ نوجوان ان پڑھ ہیں۔ وہ نوجوان جو پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے، جو کل تک یونیورسٹی میں بچوں کو تعلیم فراہم کررہا تھا وہ آج ملی ٹینٹ بنا ہوا ہے۔ وہ بندوق پکڑ رہا ہے، کس لئے؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اسے سمجھیں گے نہیں اس کو ہم حل نہیں کرپائیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دلی میں بیٹھے ڈاکٹر مسئلے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ مقامی سطح پر جنگجویت میں تیزی کے لئے آپ صرف پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔ ان کا کہنا تھا 'مقامی سطح پر جنگجویت میں تیزی کے لئے آپ صرف پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔ نئی پود تعلیم اور نوکریاں چھوڑ کر بندوقیں پکڑ رہے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر بندوق اٹھارہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی بندوقیں اٹھارہے ہیں کہ ان کا بچنا ناممکن ہے۔ اس کے لئے آپ صرف پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے ہو۔ ہمیں اپنے گریباں میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں'۔
نیشنل کانفرنس نائب صدر نے پاکستان سے مذاکرات کی وکالت کرتے ہوئے کہا 'جب ہم مان کر چلتے ہیں کہ پاکستان نے جموں وکشمیر میں حالات بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرکے ان حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ریاست میں امن قائم کرنے میں تیزی اُس وقت آئی تھی جب واجپائی صاحب (سابق وزیر اعظم) نے پرویز مشرف صاحب کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد منموہن سنگھ صاحب نے بھی مشرف صاحب سے بات چیت کی تھی۔ آج ہم ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں'۔
عمر عبداللہ نے مطالبہ کیا کہ کرتارپور راہداری کی طرح شاردا پیٹھ راہداری کو بھی پنڈت عقیدتمندوں کے لئے کھولا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا 'ہماری ریاست کے دو حصے کئے گئے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ ہم نے کشمیر کے آرپار چلنے والی بس سروس کا خیرمقدم کیا تھا۔ ہم نے آرپار تجارت کا خیرمقدم کیا تھا۔ اس میں پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کشمیری پنڈت عقیدتمندوں کی شاردا پیٹھ تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ جس طرح سکھ عقیدتمندوں کے لئے کرتارپور راہداری کو کھولا گیا، اسی طرح پنڈت عقیدتمندوں کے لئے شاردا پیٹھ کو کھولا جانا چاہیے'۔
عمر عبداللہ نے وادی کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مقامی نوجوان جنگجویت کی طرف راغب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا 'ہماری نئی نسل کا دھیان ملی ٹینسی کی طرف گیا ہے۔ ہم نے نوجوانوں کو ملی ٹینسی سے دور رکھنے کی کوششیں کی تھیں۔ ہم کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے۔ 2009 سے 2014 تک بہت کم نوجوانوں نے جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد مقامی نوجوانوں کی جنگجوﺅں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان میں لگاتار اضافہ دیکھا گیا۔ اس بات سے تو ڈر لگتا ہے۔ دراندازی کے بارے میں آج کل بہت کم سننے کو ملتا ہے، لیکن مقامی جنگجوﺅں کی ملی ٹینسی میں شمولیت ایک خطرناک عنصر ثابت ہورہا ہے'۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔