کیا ہندوستان میں مسلمان ہونا گناہ ہے!

ٹرین میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے مولانا گلزار کا کہنا ہے ’’دل میں سب سے زیادہ درد اس بات کا ہے کہ ٹرین میں لوگ ہمارے ساتھ مار پیٹ کرتے رہے اور ہمیں کسی نے نہیں بچایا۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

باغپت: دہلی سے سہارنپور جا رہی پسنجر ٹرین میں بدھ کی رات 3 مسلم علماء کے ساتھ مارپیٹ اور تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ متاثرین کو ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر نشانہ بنایا گیا اور قابل اعتراض تبصرے بھی کئے گئے۔ اس معاملہ کے تعلق سے باغپت کوتوالی میں نامعلوم افرادوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ باغپت کے ایس پی جے پرکاش کے مطابق جھگڑا سیٹ کو لے کر شروع ہوا تھا۔ متاثرین نے پولس کے اس بیان سے اپنی نااتفاقی کا اظہار کیا ہے۔ متاثرہ مولانا گلزار نزدیکی گاؤں چوہلدا کی مسجد میں تقریباً ڈیڑھ سال سے پیش امام ہیں اور مظفر نگرضلع کے قصبہ بڑھانہ کے رہنے والے ہیں ۔ اس واقعہ پر سماج کے مختلف طبقات اور سیکولر خیال کے لوگوں نےسخت اعتراض جتایا ہے۔ ’قومی آواز‘ نے مولانا گلزار سے خصوصی بات چیت کی، انہوں نے جو کچھ بتایا وہ دل دہلا دینے والا اور خوفناک ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
مولانا گلزار خان پٹائی کے بعد زخمی حالت میں

’’اب تک صرف سنا تھا، سن کر درد ہوتا تھا لیکن جب ہمارے ساتھ یہ ہو ا ، تو لگتا ہے کہ یہ وہ ہندوستان نہیں جسے ہم اپنے اندر محسوس کیا کرتے ہیں۔میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ مسلمان ہونا کیا ہماری غلطی ہے ، مولوی ہونا یا اپنے مذہب پر عمل کرنا کیا ہماری غلطی ہے؟ ہم تویہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں ہم برابر کے حصہ دار ہیں۔ اب ہمیں کوئی بتائے کہ ہماری غلطی کیا ہے؟ ہمارے ساتھ جن لوگوں نے مارپیٹ کی ہم انہیں جانتے تک نہیں۔ جب بھی ہم نظر یں اوپر کرتے تھے وہ فوراً تھپڑ مارتے تھے اور کہتے تھے ’نظر نیچی کر‘۔ گلے میں پڑے رومال پر ’کمنٹ ‘ کر رہے تھے اوراسے پکڑ کر کھینچ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’ہم سکھائیں گے تمہیں ٹوپی پہننا‘ ۔ گندی گندی گالی بھی دے رہے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ ہمیں کیوں پیٹا گیا! میرا بھتیجا اپنے دوست کے ساتھ دہلی گھومنے گیا تھا اور رات میں ہم واپس لوٹ رہے تھے۔‘‘

’’ دہلی سے ہم نظام الدین مرکز (تبلیغی جماعت ) اور جامع مسجد کو دیکھ کر لوٹ رہے تھے۔باغپت سے پسنجر ٹرین سہارنپور جاتی ہے ہم لوگ اسی میں سوار تھے۔ ہم لوگوں کو اہیرہ اسٹیشن پر اترنا تھا۔ رات کے ساڑھے دس بجے ہوں گے۔ 15-20 لوگ ٹرین کے دروازے پر آ گئے۔ ان کے پاس برف توڑنے والا سوا تھا ۔ ہمیں اہیرا اسٹیشن پر اترنے نہیں دیا گیا۔ بس پیٹتے رہے، بغیر کسی غلطی کے۔ پھر انہوں نے چین کھینچ دی اور ہم جنگل میں اتر گئے ۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
مولانا گلزار خان سے پورے معاملے کی تفصیلات حاصل کرتی ہوئی باغپت پولس

یہاں سے ہم سیدھے باغپت کوتوالی گئے اور وہاں پولس کو پوری تفصیل بتائی۔ انھوں نے رپورٹ درج کر لی۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ مجھے کتنا برا محسوس ہو رہا ہے۔ میرے مہمان پیٹے گئے، مجھے میری مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ میں آپ کو اپنا دل چیر کر دکھا نہیں سکتا کہ میں کتنا پریشان ہوں۔ اس سے قبل کبھی ہمارے ساتھ کوئی مذہبی تفریق کا معاملہ نہیں ہوا ۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوکہ وہ مصیبت میں ہوں اور مجھے مل جائیں تو میں ان کی مدد کروں گا۔ آخر انھوں نے ہمیں کیوں مارا! بلا وجہ! کلیجہ پھٹ رہا ہے۔ مجھے اتنا برا لگا کہ میں قطعاً بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے اس پورے واقعہ سے بے انتہا تکلیف پہنچی ہے۔‘‘

’’میں بڈھانا کے پاس جوگیا کھیڑا کا رہنے والا ہوں۔ یہاں میں ڈیڑھ سال سے ہوں مگر میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آج ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ اب ہندوستان ہمارا نہیں ہے۔ ہم وطن کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں اور مسلمان ہونا ہی ہمارے لیے سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ میں آپ کو اپنا درد دکھا نہیں سکتا۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کی وجہ کیا ہے! میں سیاسی آدمی نہیں ہوں۔ کسی پارٹی سے میرا کوئی مطلب نہیں۔ آج پہلی بار مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے۔ حکومت ہند سے میں ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایسا قدم اٹھائیں کہ جو ہمارے ساتھ ہوا وہ کسی کے ساتھ نہ ہو اور ملک میں امن و امان قائم رہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2017, 9:40 PM