گجرات: مسلم نوجوانوں کی سرعام پٹائی کرنے والے پولیس اہلکاروں کا ایس پی نے عدالت میں کیا دفاع

ایک مسجد کے قریب گربا پروگرام کی مخالفت کے دوران ہندو مسلم جھگڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں کچھ پولیس اہلکار مسلم نوجوانوں کو کھمبے سے باندھ کر پیٹتے نظر آئے تھے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

گاندھی نگر: کھیڑا ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ راجیش کمار گڑھیا نے گجرات ہائی کورٹ میں حلف نامہ دائر کر کے ان پولیس اہلکاروں کی طرف سے اکتوبر 2022 میں اوندھیلا گاؤں میں مسلم نوجوانوں کو سرعام پیٹنے کو جائز قرار دیا ہے۔ انڈین ایکسپریس نے ایس پی کے حلف نامہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’’مشتبہ افراد کو صرف امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے مقصد سے پکڑا گیا تھا۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ سال 3 اکتوبر کو کھیڑا ضلع کے ایک گاؤں میں مسجد کے قریب گربا پروگرام کی مخالفت کے بعد ہندو اور مسلم برادری کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ اس واقعہ سے متعلق ایک ویڈیو میں کچھ پولیس اہلکاروں کو کچھ مسلم نوجوانوں کو کھمبے سے باندھ کر لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں سادہ لباس میں پٹائی کرتے ہوئے نظر آنے والے لوگوں کی شناخت کھیڑا ضلع کی لوکل کرائم برانچ (ایل سی بی) یونٹ کے پولیس اہلکاروں کے طور پر کی گئی تھی۔


انڈین ایکسپریس کے مطابق، اگرچہ ایس پی نے پولیس کی کارروائی کا دفاع کیا ہے لیکن کپاڑونج ڈویژن کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی ایک عبوری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’ذمہ دار پولیس افسران کے طور پر ملزم پولیس اہلکاروں کو دوسرے ذرائع استعمال کرنے اور ملزمان کو پکڑ کر کسی دوسرے محفوظ مقام پر لے جانے کی ضرورت تھی۔‘‘

اکتوبر میں ہونے والے اس واقعے کے بعد متاثرین ظہیر میاں ملک (62)، مقصود ملک (45)، شاہد میاں ملک (23)، شکیل میاں ملک (24) اور شہید راجہ ملک (25) نے 15 پولیس اہلکاروں کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔

ان پولیس اہلکاروں میں انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی- احمد آباد رینج)، کھیڑا سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، مٹر پولیس اسٹیشن کے 10 کانسٹیبل اور لوکل کرائم برانچ (ایل سی بی) کے 3 افسران شامل ہیں۔ گجرات ہائی کورٹ اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔

عرضی گزاروں نے اپنی عرضی میں ڈی کے باسو بمقابلہ ریاست مغربی بنگال کیس کا حوالہ دیا ہے، جس میں عدالت عظمیٰ نے پولیس کے لئے بنیادی رہنما ہدایات طے کی تھیں، جب تک کہ گرفتاری اور حراست کے دوران قانونی خانہ پری مکمل نہ ہو جائے۔


پولیس افسران پر ان رہنما ہدایات کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے عرضی گزاروں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کے ساتھ معاوضے کی بھی درخواست کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق مار پیٹ میں ملوث ہونے کے الزام میں پولیس اہلکاروں نے حلف نامے کے دو سیٹ بھی داخل کئے ہیں۔ ایک سیٹ میں یہ کہہ کر مار پیٹ کا جواز پیش کیا کہ متاثرین کا مجرمانہ پس منظر تھا اس لیے امن و امان کی حفاظت ضروری تھی اور دوسرے سیٹ میں کہا گیا کہ توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ وہ صرف اپنے اندر فرائض کی انجام دہی کر رہے تھے۔

مٹر پولیس اسٹیشن کی پولیس سب انسپکٹر (پی ایس آئی) ہیتل بین رابری اور ایک ملزم نے مبینہ طور پر اپنے حلف نامہ میں غیر مشروط معافی مانگی ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’اگرچہ الزامات درست ثابت ہوں لیکن انہوں نے ایسا قدم صرف عرضی گزاروں سے موثر انداز میں نمٹنے، امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور کسی بھی قسم کے فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے اٹھایا تھا۔‘‘

خیال رہے کہ پولیس کے تشدد کے فوراً بعد گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے پولیس اہلکاروں کی تعریف کرتے ہوئے اسے بہترین کام قرار دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔