گجرات فسادات: مجرموں کی رہائی کے خلاف بلقیس بانو کی نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ سے خارج
سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی اس نظرثانی کی درخواست کو مسترد کر دیا، جس میں اس نے ایک مجرم کی درخواست پر فیصلہ دیا تھا کہ گجرات حکومت کو مجرموں کی رہائی سے متعلق 1992 کی پالیسی پر غور کرنا چاہیے
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی اس نظرثانی درخواست کو خارج کر دیا ہے جس میں میں انہوں نے مئی میں دیے گئے عدالت عظمیٰ کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں گجرات حکومت کو 1992 کے جیل قوانین کے تحت 11 مجرموں کو رہا کرنے کی اجازت دی گئی گئی تھی۔
مئی 2022 میں جسٹس اجے رستوگی نے ایک مجرم کی درخواست پر حکم دیا تھا کہ گجرات حکومت 1992 کی رہائی کی پالیسی کے تحت بلقیس بانو کیس کے مجرموں کو رہا کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ تاہم بلقیس بانو نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس کیس کی پوری سماعت مہاراشٹر میں ہوئی ہے اور وہاں کی رہائی کی پالیسی کے مطابق ایسے گھناؤنے جرائم پر 28 سال سے پہلے رہا نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ مجرم کی درخواست پر اسی ریاست میں غور کیا جا سکتا ہے جہاں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ اب چونکہ بلقیس بانو کیس گجرات سے متعلق ہے، اس لیے اس کیس کے مجرموں پر حکومت گجرات نے سزا کم کرنے کا فیصلہ لیا۔
غور طلب ہے کہ 15 اگست کو گجرات حکومت نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے تمام 11 مجرموں کو معافی دیتے ہوئے رہا کر دیا تھا۔ کانگریس سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس معاملے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور گجرات حکومت کی سخت مذمت کی۔
ریمیشن یعنی معافی کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کی سزا کی مدت کو کم کر دیا جائے۔ معافی دیتے وقت صرف سزا کی مدت کو کم کیا جا سکتا ہے جرم کی نوعیت تبدیل نہیں کی جاتی۔ وہیں، اگر مجرم معافی کی پالیسی کے قواعد پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کرتا، تو سے دی گئی رعایت سے محروم بھی کیا جا سکتا ہے اور پھر اسے پوری سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔