’’جنھوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا وہ ’قصائی‘ تھے‘‘
گجرات کے وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے ریاستی اسمبلی میں عوام کی بے عزتی کرتے ہوئے کہا کہ جنھوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا وہ سب گئو کشی کے حامی تھے۔
بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ چھوٹے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ طور طریقہ، زبان، تہذیب، اخلاق... یہ سب اپنے بڑوں سے ہی سیکھا جاتا ہے۔ اور جب سکھانے والا ملک کے اعلیٰ عہدہ پر بیٹھا ہو تو پھر آئینی ہاؤس میں کھڑے ہو کر مینڈیٹ کو گالیاں دینا کس طرح مناسب ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں گجرات کے وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ کی۔
جڈیجہ نے جمعرات کو گجرات اسمبلی میں کھلے عام کہا کہ ’’گجرات کے جن لوگوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا وہ قصائی ہیں، غیر قانونی شراب کا دھندا کرنے والے ہیں اور تین طلاق کے حامی ہیں۔ ان کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ گجرات کے ساڑھے چھ کروڑ لوگ اور تقریباً ساڑھے تین کروڑ ووٹروں میں سے صرف وہ 40 فیصد لوگ ہی اچھے ہیں جنھوں نے گزشتہ گجرات انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹ کیا۔
گجرات اسمبلی کے بجٹ سیشن میں گورنر کے خطاب پر شکریہ کی تجویز کے جواب میں بولتے ہوئے پردیپ سنگھ جڈیجہ نے کہا کہ ’’میں بتاتا ہوں کہ کن لوگوں نے ہمیں ووٹ نہیں دیا۔ یہ وہ قصائی تھے جو گئوکشی مخالف قانون کے سبب ہم سے ناراض تھے۔ یہ غیر قانونی شراب کا دھندا کرنے والے لوگ تھے جو گجرات میں شراب پر سخت پابندی کے سبب ناراض تھے۔‘‘ جڈیجہ اتنے پر ہی نہیں رکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں ووٹ نہ دینے والے وہ لوگ تھے جو مسلم خواتین کے لیے لائے گئے تین طلاق قانون سے ناراض تھے۔‘‘
کیا اسے آئینی زبان کہا جائے گا؟ کیا یہ مینڈینٹ کی بے عزتی نہیں ہے؟ ابھی گزشتہ ہفتہ گجرات سے ہی ملحق مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی لیڈروں نے اسی طرح کی باتیں کیں تھیں۔ کولارس ضمنی انتخاب کی تشہیر کے دوران بی جے پی حکومت کے وزیر برسرعام ووٹروں کو دھمکا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کی خواتین و ترقی اطفال کی وزیر مایا سنگھ نے واضح لفظوں میں کہا ’’جنھوں نے پھول کو ووٹ دیا ہے ان کا سب کچھ ٹھیک ہے۔ بی جے پی کو ووٹ دیجیے سب کو سب کچھ ملے گا۔ اپنا ووٹ خراب مت کرنا، اگر اس بار غلطی کریں گے تو کچھ نہیں پائیں گے۔‘‘
بات صرف ایک وزیر کی نہیں تھی۔ شیو راج حکومت کی ہی ایک اور وزیر یشودھرا راجے سندھیا نے بھی 17 فروری کو کولارس کے پڈورا گاؤں میں اپنے جلسہ کے دوران لوگوں کے دل و دماغ میں ڈر بیٹھانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے دھمکی دی تھی ’’چولہے کا منصوبہ، کیوں نہیں آیا آپ کے پاس؟ بی جے پی کمل کا منصوبہ ہے۔ آپ لوگ پنجے کو ووٹ دو گے تو آپ کے پاس یہ منصوبہ نہیں آئے گا۔ آپ کمل کو دو گے تو آپ کے پاس یہ منصوبہ آئے گا... سیدھی بات ہے۔‘‘
ان بیانات سے بی جے پی لیڈروں کی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں مینڈیٹ کی بے عزتی ہوتی ہے، ووٹروں کو دھمکایا جاتا ہے، انا کا مظاہرہ ہوتا ہے، اور یہ ہو بھی کیوں نہ... آخر ’پردھان سیوک‘ نے ہی تو یہ راستہ دکھایا ہے۔
گجرات انتخابات کے اعلان سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات میں کئی منصوبوں کی شروعات کی تھی۔ وڈودرا میں کئی پروجیکٹس کی شروعات کرتے ہوئے مودی نے عزم مصمم کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’جو ریاستیں ’ترقی‘ مخالف ہوں گی انھیں مرکز کی طرف سے ایک پیسہ نہیں ملے گا۔‘‘ یہ وزیر اعظم کے منھ سے نکلا ہوا بیان نہیں بلکہ فاشسٹ نظریہ رکھنے والے کی انا کا اعلان تھا۔ قدیم ہندوستان کی کسی ریاست یا رجواڑے کے کسی راجے مہاراجے کی انا تھی کہ ’’میں خوش تو اشرفیوں سے لاد دوں گا، ورنہ پھوٹی کوڑی نہیں دوں گا۔‘‘
وزیر اعظم کا یہ بیان صرف ایک اعلان نہیں تھا بلکہ پورے ملک کو دھمکی تھی کہ اگر انھیں ووٹ نہیں دیا تو کوڑی-کوڑی کو محتاج کر دیں گے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان اس آئین کی بھی خلاف ورزی کرتی تھی جو مرکز اور ریاستوں کے درمیان دولت اور وسائل کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔
وڈودرا میں وزیر اعظم کی اسی تقریر کی گونج اب گجرات اسمبلی میں سنائی دے رہی ہے، اور مدھیہ پردیش کے ضمنی انتخاب میں بھی اسی کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یوں بھی گزشتہ کوئی دس بارہ سالوں سے گجرات کے وزیر داخلہ کے عہدہ پر بیٹھے شخص کی روش کچھ الگ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس میں کسی کی پشت پناہی کا اعتماد ہوتا ہے، حکومتی اختیارات کے منمانے استعمال کا نشہ ہوتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں ہی نہیں، پارٹی کے اندر موجود مخالفین کو متنبہ کرنے کا جذبہ رہتا ہے، سوال کے بدلے سوال پوچھنے کی ہمت ہوتی ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ گجرات میں جب نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے تو امت شاہ وزیر داخلہ تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔