ای وی ایم میں پڑے ووٹ اور وی وی پیٹ پرچیوں کی تعداد مختلف
گجرات کے چیف الیکشن افسر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کم از کم چار پولنگ بوتھ پر ای وی ایم میں پڑے ووٹوں اور وی وی پیٹ کی پرچیوں میں ظاہر کیے گئے ووٹوں کے درمیان فرق ہے۔
جس بات کا اندیشہ تھا آخر وہی بات سامنے آ رہی ہے۔ گجرات انتخابات میں وی وی پیٹ پرچیوں اور ای وی ایم کے ووٹوں کو ملانے کے دوران چار پولنگ اسٹیشنوں پر گڑبڑی پائی گئی ہے۔ یہ بات ایک خبر رساں ایجنسی نے بتائی ہے۔ اس کے مطابق خود ریاست کے چیف الیکشن افسر بی بی سوین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر گڑبڑیاں سامنے آئی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سوموار کو ووٹوں کی گنتی کے دن واگرا، دوارکا، انکلیشور اور بھاونگر (دیہی) سیٹ پر اس طرح کا معاملہ سامنے آیا۔
بی بی سوین نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’’یہاں کے چار بوتھوں پر ای وی ایم اور وی وی پیٹ کی پرچی ملانے میں کچھ ووٹوں کا فرق دیکھنے کو ملا تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ریٹرننگ افسر نے ایک غلطی کی ہے جسے درست نہیں کیا گیا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ 9 اور 14 دسمبر کو ہوئی ووٹنگ سے قبل ’ماک پول‘ کے ووٹوں کو ای وی ایم سے نہیں ہٹایا گیا جس سے گڑبڑی ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ یہ گڑبڑی سامنے آنے کے بعد ہم نے اس معاملے کو حل کرنے کے مقصد سے ان بوتھوں میں وی وی پیٹ سلپ کی گنتی کو بنیاد بنایا۔‘‘
واضح رہے کہ انتخابی کمیشن نے ہماچل پردیش اور گجرات کے چیف الیکشن افسروں کو ہر اسمبلی حلقہ کے کم از کم ایک پولنگ اسٹیشن کی وی وی پیٹ پرچیوں کا ای وی ایم میں پڑے ووٹوں سے ملانے کی ہدایت دی تھی۔ اس عمل میں پولنگ اسٹیشن کو لاٹری کے ذریعہ انتخاب کیا جانا تھا۔ گجرات کے چیف الیکشن کمشنر سوین کا کہنا ہے کہ 182 اسمبلی حلقوں میں اس عمل کو پورا کرنے کے بعد ان چار حلقوں میں اس طرح کی گڑبڑی دیکھنے کو ملی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سات اسمبلی حلقوں کے 10 بوتھوں میں بھی وی وی پیٹ کی پرچیوں کو ووٹ شماری کا بنیاد بنایا گیا ہے کیونکہ یہاں بھی 9 اور 14 تاریخ کی ووٹنگ سے قبل ہوئے ای وی ایم ماک پول کے ڈاٹا کو مٹانا افسران بھول گئے تھے۔ لہٰذا وہاں بھی وی وی پیٹ کے ذریعہ ہی ووٹ شماری ہوئی۔ حالانکہ سوین نے وی وی پیٹ پرچیوں کو ملانے کا عمل پورا ہونے کے بعد 100 فیصد درست ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ان کے ہی بیان میں یہ گڑبڑیاں بھی سامنے آئی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ووٹوں کی گنتی سے پہلے گجرات کانگریس نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے کل ووٹنگ کے 25 فیصد ای وی ایم میں پڑے ووٹوں کی ہاتھوں سے گنتی کرانے کی اپیل کی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اسے خارج کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت اس وقت تک اس معاملے میں دخل نہیں دے سکتی جب تک کہ ای وی ایم-وی وی پیٹ سلپ کے ملانے کے دوران کوئی گڑبڑی یا پھر جانبداری نظر نہیں آتی ہے۔ پاٹیدار انامت آندولن سمیتی کے لیڈر ہاردک پٹیل اور دوسرے لوگ پہلے سے ہی ای وی ایم کے ساتھ چھیڑخانی کا الزام لگا چکے ہیں۔ ان دلائل کے سامنے آنے کے بعد ان کے دعوے مزید پختہ ہوتے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا میں اب اس سلسلے میں سوال اٹھنے لگے ہیں۔ روی گوتم نام کے ایک شخص نے اس معاملے پر سلسلہ وار کئی ٹوئٹ بھی کیے۔ ان ٹوئٹس میں انھوں نے نتائج کی سچائی پر ہی سوال کھڑا کر دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’182 میں چار سیٹوں پر ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے ووٹوں میں فرق دیکھا گیا۔ یعنی 2 فیصد سے زیادہ کی گڑبڑی۔ یعنی 2 فیصد ووٹ سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ اس کا مطلب کل 6 لاکھ ووٹ۔‘‘
اس کے ساتھ ہی انھوں نے کچھ دیگر ٹوئٹ کے ذریعہ اس کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی۔ انھوں نے لکھا کہ ’’انتخابی کمیشن کے ہر اسمبلی کے ایک پولنگ بوتھ کے نمائندہ نمونے کو اگر منظور کیا جائے تو کل بوتھوں کی تعداد 50128 ہے۔ سوالوں کے گھیرے میں آنے والے بوتھ کی تعداد 4x50128/182=1102۔ کیونکہ انتخابی کمیشن نے چار بوتھوں پر گڑبڑی کی بات کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 182 اسمبلی حلقوں میں 1102 بوتھوں پر ممکنہ گڑبڑی ہوئی ہے۔ یعنی ہر اسمبلی حلقہ میں 6 بوتھوں پر گڑبڑی ہوئی۔ ایک ای وی ایم میں 3800 ووٹ آتے ہیں۔ تصور کر لیا کہ ایک اوسط ای وی ایم نصف ہی بھرتی ہے۔ ایسے میں ہر سیٹ پر اس طرح کے ممکنہ شبہات کے دائرے میں آنے والے ووٹوں کی تعداد 11400 ہو جاتی ہے۔‘‘
اس کے بعد والے ٹوئٹ میں گوتم نے لکھا ہے کہ ’’عام طور پر ریاستی اسمبلی میں جیت کا اوسط فرق پانچ سے چھ ہزار ووٹوں کا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ای وی ایم سسٹم میں خامی کا جو فرق ہے اس کے مطابق پورے نتائج ہی بدل جائیں گے۔ اس کا ہیکنگ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ صرف انتخابی کمیشن کے ڈاٹا کی جانچ کے لیے کی گئی کوشش ہے۔ انتخابی کمیشن کو ضرور بتانا چاہیے کہ ای وی ایم اور وی وی پیٹ میں الگ الگ کتنے ووٹ تھے اور وہ کس طرح اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ فرق پرانے ڈاٹا کی وجہ سے ہوا ہے؟ کیونکہ میری جانکاری میں ای وی ایم ٹائم کو ریکارڈ نہیں کرتی ہے۔‘‘
ایک بلاگر جیمس ولسن نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ ’’اگر اوپر کی باتیں سچ ہیں تو ہمارے اسٹینوگرافی ماہر صحافی جنھوں نے ای سی آئی کو صاف ستھرا بتانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، وہ ملک کو سچائی بتانے کے اپنے کام میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بھکتی ایک طرح کی بیماری ہے۔‘‘
(یہ رپورٹ سب سے پہلے جن چوک ڈاٹ کام پر شائع ہوئی تھی۔)
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔