گراؤنڈ رپورٹ: کھلے میں رفع حاجت سے پاک یو پی کے گاؤں میں نہیں ملا ایک بھی بیت الخلاء!
یوگی حکومت کے ذریعہ کھلے میں رفع حاجت سے پاک یعنی او ڈی ایف قرار دیئے گئے گاؤوں کے دورے پر جو حقیقت سامنے آئی وہ ’سوچھ بھارت‘ کو لے کر مودی حکومت کے تمام دعووں کی قلعی کھولتی ہے۔
اتر پردیش کے چترکوٹ ضلع کے کویں بلاک واقع ڈفائی گاؤں میں کول قبائلی رہتے ہیں۔ یہاں بیت الخلاء کی بہت ضرورت ہے۔ آس پاس کانکنی اور پتھر توڑنے کا کام ہونے کی وجہ سے بہت سے ٹرک تیزی سے آتے جاتے ہیں جس سے کھلے میں رفع حاجت کے لیے ایک ہی جگہ پہاڑیوں کی طرف ہے اور وہاں خواتین کے ساتھ مرد بھی جاتے ہیں تو بہت مشکل حالات پیدا ہوتے ہیں۔
ایسے میں بیت الخلاء بننا اس گاؤں کے لیے بہت ضروری ہے اور یہاں کے لوگ یہ چاہتے بھی بہت ہیں۔ لیکن حال کے سالوں میں اتنی تشہیر کے باوجود اس گاؤں میں کسی بھی فیملی کو نہ تو بیت الخلاء بنانے کے لیے سرکاری مدد ملی اور نہ ہی وہ بیت الخلاء بنوا سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ چاہے پورا علاقہ کھلے میں رفع حاجت سے پاک یعنی او ڈی ایف قرار دے دیا گیا ہو لیکن حقیقت میں بیت الخلاء کی تعمیر اور استعمال سا گاؤں میں زیرو فیصد ہی ہے۔
مان لیجیے کہ یہاں بیت الخلاء تعمیر ہو بھی جائے تو ان بیت الخلاء کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔ تقریباً 150 فیملی کے اس گاؤں میں ایک ہی ہینڈ پمپ ہے۔ وہ بھی کئی بار ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے تو پڑوس کے گاؤں سے بہت مشکل سے پانی لانا پڑتا ہے۔ اس حالت میں جہاں پینے کے لیے پانی حاصل کرنے میں اتنی پریشانی ہے، وہاں بیت الخلاء کے لیے جو زیادہ مقدار میں پانی چاہیے وہ کیسے حاصل ہوگا۔ اس لیے بیت الخلاء تعمیر کو کامیاب کرنا ہے تو پانی کی دستیابی بھی ضروری ہے۔
اسی طرح باندا ضلع کے مہوا بلاک میں کھمورا گاؤں موجود ہے۔ یہاں کچھ بندیا طبقہ کے لوگ رہتے ہیں جو کول قبائلیوں کی طرح غریب اور نظر انداز ہے۔ یہاں بھی بیت الخلاء کی بہت ضرورت ہے کیونکہ سال کے زیادہ تر مہینوں میں انھیں بہت دور ایک نہر کے پاس رفع حاجت کے لیے جانا پڑتا ہے۔ بارش کے دنوں میں گاؤں میں عموماً پانی بھر جاتا ہے اور تب رفع حاجت کے لیے مشکلیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ گاؤں میں کچھ معذور اشخاص بھی ہیں جنھیں کافی مشقت سے سائیکل پر بٹھا کر رفع حاجت کے لیے لے جانا پڑتا ہے۔
ان مسائل کو دیکھتے ہوئے بیت الخلاء کے لیے یہاں کے لوگوں نے کوششیں کیں۔ یہاں کے پنچایت رکن راجہ نے بتایا کہ میں نے خود بہت کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ اپنی فیملی کے لئے بیت الخلاء کا کام تو میں نے شروع بھی کر دیا، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ سرکاری مدد مجھے تو مل ہی جائے گی۔ لیکن مدد نہیں ملی اور میرا بھی بیت الخلاء کا کام ادھورا پڑا ہے۔ تقریباً 60 لوگوں کی اجتماعی میٹنگ میں گاؤں کے باشندوں نے بتایا کہ کسی بھی فیملی کے لیے بیت الخلاء دستیاب نہیں ہے جب کہ ضرورت سبھی کی ہے۔
یہاں بھی ایک سوال اٹھا کہ بیت الخلاء بن بھی گئے تو ان کے لیے پانی کہاں سے ملے گا۔ گاؤں میں صرف 2 ہینڈ پمپ ہیں اور ان سے پانی کی دستیابی بہت ناکافی ہے۔ ٹوٹنے پھوٹنے پر ان کی مرمت بھی جلد نہیں ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں بیت الخلاء کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔
ان دو گاؤوں کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ نظر انداز غریب طبقات میں ان کے گاؤوں میں صفائی اور پانی کی حالت بہت مشکل ہے۔ سرکاری تشہیر میں ان گاؤوں کی اصل حالت دب ہی گئی ہے۔ لیکن حقیقی صورت حال کو سامنے لانا ضروری ہے۔ اگر جھوٹ کی تشہیر کی بنیاد پر مان لیا جائے کہ سبھی گاؤں کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہو گئے ہیں تو مستقبل میں بھی انھیں بیت الخلاء تعمیر کے لیے مدد نہیں ملے گی۔ اس لیے صحیح حالت سامنے لانا ضروری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔