سہارنپور گراؤنڈ رپورٹ: بے گناہ نوجوان جیل سے تو باہر آ گئے، لیکن خوف میں اب بھی قید!

سہارنپور میں 10 جون کو جمعہ کی نماز کے بعد ہوئے ہنگامہ کے بعد 108 نوجوان گرفتار ہوئے تھے، ان میں سے 8 افراد کو 23 دنوں تک جیل میں بند رہنے کے بعد رِہا کر دیا گیا۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

سہارنپور کی تاریخی جامع مسجد کے باہر ایک اہم نوٹس بورڈ لگایا گیا ہے۔ اسے مسجد کمیٹی نے لگوایا ہے، جس پر لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی میڈیا انچارج، نامہ نگار اور کیمرہ مین جمعہ کی نماز کے بعد نمازیوں، امام صاحب اور منیجنگ کمیٹی کے عہدیداروں و اراکین سے رابطہ قائم نہ کرے اور کسی طرح کا کوئی ایسا سوال نہ کرے جس سے ناراضگی کا ماحول پیدا ہو۔ شاید ملک بھر میں یہ پہلا نوٹس بورڈ ہے جس میں میڈیا کو مسجد سے پوری طرح دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

مسجد کے امام قاری ارشد گورا بتاتے ہیں کہ دو ماہ قبل الوداع جمعہ کی نماز کے بعد کچھ میڈیا اہلکاروں کے ذریعہ سڑک پر نماز نہ پڑھنے کو لے کر اکسانے والے سوال پوچھے گئے تھے جو درست نہیں تھے۔ میڈیا بات کا رخ موڑ رہا ہے اس لیے مسجد کمیٹی نے یہ بورڈ لگوایا ہے۔ موجودہ حالات نوپور شرما کے قابل اعتراض تبصرہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ قاری ارشد گورا سہارنپور میں امن قائم رہنے کی دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اب بے حد سنجیدگی سے اپنی بات رکھنے کی ضرورت ہے، سڑکوں پر جانا ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت کو پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی نوپور شرما کو گرفتار کرنا چاہیے تھا۔ اب سپریم کورٹ کا تبصرہ بھی آ گیا ہے۔ ہم آج بھی نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘

سہارنپور گراؤنڈ رپورٹ: بے گناہ نوجوان جیل سے تو باہر آ گئے، لیکن خوف میں اب بھی قید!

سہارنپور کی تاریخی جامع مسجد شہید گنج علاقے میں ہے۔ شہید گنج علاقے کی اہم سڑک سہارنپور کا دل کہے جانے والے گھنٹہ گھر تک جاتی ہے اور اس راستہ میں شہر کی سب سے مصروف مارکیٹ ’نہرو مارکیٹ‘ پڑتی ہے۔ نماز پڑھ کر اس دن بھیڑ گھنٹہ گھر جا رہی تھی۔ اکثر بھیڑ گھنٹہ گھر جا کر لوٹ آتی ہے۔ اس دن بھی ہزاروں کی بھیڑ اس بازار سے نعرہ بازی کرتی ہوئی گھنٹہ گھر تک گئی، اس کا ایک حصہ انبالہ روڈ سے ہوتے ہوئے قطب شیر کے سامنے سے کمبوہ کے پل کی طرف چلا گیا جب کہ ایک بڑا حصہ اسی راستے سے واپس آیا۔ شہید گنج کے دکاندار ارشد انصاری بتاتے ہیں کہ واپس آتے وقت درجنوں ایسے لڑکے انھیں دکھائی دیے جو جاتے وقت بھیڑ کے ساتھ نہیں تھے۔ انھوں نے سڑک کنارے کھڑی سائیکل گرائی، موٹر سائیکل کو دھکا دیا اور کئی دکانوں کے باہر ماڈل ڈمی کو نیچے گرا دیا جس کے بعد پولیس ایکشن میں آ گئی۔

10 جون، بروز جمعہ کو ہنگامہ کے بعد سے پولیس نے 108 لوگوں کو گرفتار کیا اور جیل بھیج دیا۔ ان میں سے 8 نوجوان اتوار کو جیل سے گھر آ گئے ہیں۔ انھیں ضمانت نہیں کرانی پڑی بلکہ ثبوتوں کی عدم موجودگی میں 169 سی آر پی سی کی کارروائی کے تحت انھیں رِہا کیا گیا۔ پولیس نے ان آٹھ لوگوں کو شبہات کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا اور پھر ہنگامہ کرنے کا ملزم بنا کر جیل بھیج دیا تھا۔ پولیس جانچ میں یہ نوجوان بے گناہ نکلے ہیں۔


اس دوران جیل میں پولیس پٹائی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں پولیس تشدد میں شامل ہونے کے محض شک کی بنیاد پر کچھ نوجوانوں کو بے رحمی سے پیٹ رہی تھی۔ ان گرفتاریوں کے خلاف کئی تنظیموں نے آواز اٹھائی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پولیس نے بے قصور لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ اب جیل سے چھوٹ کر آئے ان نوجوانوں میں محمد علی، آصف، عبدالصمد، گلفام، کیف انصاری، سبحان، فرقان اور مہاراج ہیں۔ ان میں محمد علی، آصف، سبحان اور گلفام ان نوجوانوں میں شامل تھے جن کی پولیس کے ذریعہ پٹائی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ انھیں پولیس نے لاک اَپ میں بے رحمی سے پیٹا تھا۔ ان میں سے کسی کا ہاتھ ٹوٹا تو کسی کا پیر۔ مقامی پولیس نے حالانکہ ویڈیو سہارنپور کی ہونے سے انکار کیا تھا۔ ویڈیو سہارنپور کی ہے یا نہیں، اب اس میں جانچ ہو رہی ہے۔ سابق آئی پی ایس امیتابھ ٹھاکر نے اس معاملے میں حقوق انسانی کمیشن میں شکایت کی ہے۔

فی الحال جیل سے چھوٹ کر آئے ان نوجوانوں کی رہائی پر عدالت نے بھی پولیس پر سخت تبصرہ کیا ہے۔ ان نوجوانوں کی پیروی کرنے والے وکیل بابر وسیم بتاتے ہیں کہ عدالت نے پولیس کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ جن نوجوانوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا، ان کے خلاف سخت دفعات لگانے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ جس معاملے میں ایک بھی شخص زخمی نہیں ہوا اس معاملے میں 307 جیسی دفعات میں کارروائی کیوں کی گئی! اس معاملے میں پولیس کی زبردست سرزنش ہوئی ہے۔ سہارنپور کے پولیس کپتان آکاش تومر اب بدلے جا چکے ہیں۔ ان کی جگہ وپن ٹانڈا نئے پولیس کپتان بنائے گئے ہیں۔ سہارنپور تشدد کے معاملے میں اب تک مجموعی طور پر 19 لوگوں کی رِہائی ہو چکی ہے۔ رِہا ہوئےلوگوں میں سے کچھ کے کنبہ والوں کو گھر کا نقشہ پاس نہ ہونے کے سبب گھر گرانے کے لیے وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری ہوئے تھے۔


سہارنپور کے ایس پی سٹی راجیش کمار بتاتے ہیں کہ ان سبھی کو شبہات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ چھان بین جاری تھی۔ لیکن ٹھوس ثبوت نہیں ملنے کی وجہ سے ہم نے عدالت میں عرضی داخل کروائی۔ انھیں چھوڑا گیا ہے۔ رِہا ہوئے لوگوں کے گھر والوں نےثبوت دیے تھے کہ یہ لوگ اس واقعہ میں شامل نہیں ہیں، اسے ہم لوگوں نے جانچا اور سی سی ٹی وی فوٹیج ملایا گیا تو پتہ لگا کہ اس دن واقعہ کے وقت وہ کہیں اور تھے۔

ان سبھی نوجوانوں کے خلاف پولیس نے 169 کی کارروائی کی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف اب کوئی عدالتی کارروائی بھی نہیں ہوگی۔ انھیں ثبوت کی عدم موجودگی میں رِہا کیا گیا ہے۔ رِہا کیے گئے ان نوجوانوں میں سے بیشتر میڈیا سےبات نہیں کر رہے ہیں۔ کچھ کے گھر والوں نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عجیب یہ ہے کہ ان میں سے دو نابالغ ہیں۔ سبھی یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ انھیں غلط طریقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ گھر باہر کچھ سے سامان لینے گئے تھے۔ رِہا ہوا پکہ باغ باشندہ علی بتاتا ہے کہ وہ دہی لینے کے گھر سے موٹر سائیکل پر گیا تھا۔ پولیس نے پکڑ لیا اور اس کے ساتھ اس کے دوست کو لاک اَپ میں بند کر دیا۔ رات میں لاک اَپ میں پٹائی کی گئی۔ جیل میں 23 دن 23 سال جیسے لگے اور کل جب وہ گھر لوٹ کر آئے تو رات میں ڈر کر اٹھ گئے۔ کھاتاکھیڑی کے سبحان کہتے ہیں کہ بے گناہ ہونے پر رِہائی کرانے میں مدد بھی پولیس نے ہی کی اور ظلم بھی پولیس نے ہی کیا تھا۔ ہم تو فٹ بال ہیں، وہ ہم سے کھیل رہے ہیں۔ میرے دماغ میں تو اب تک جیل ہی گھوم رہی ہے۔ ہم ڈر گئے ہیں۔


رِہا کیے گئے ایک دیگر نوجوان مہاراج کے چچا سرفراز احمد پیر والی گلی میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیا کے لوگوں کو بھی نہیں، کیونکہ سبھی سچ جانتے ہیں۔ سب کو پتہ تھا کہ لاک اَپ میں زیادتی کر کے ویڈیو وائرل کی گئی! تاکہ ایک پیغام دیا جا سکے! مسلمانوں کے کسی لیڈر نے یہ آواز نہیں اٹھائی کہ لاک اَپ میں پٹائی کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جب کہ تمام مقامی لیڈر ان پولیس اہلکاروں کو پہچانتے تھے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ غیر جانبدار ہونے کی بات کہتے ہیں، آخر بے گناہوں پر یہ زیادتی کیوں ہوئی، اب تو بے گناہی بھی ثابت ہو گئی ہے۔

محلہ منڈی میں رہنے والے سید شکیل احمد کہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں سہارنپور کے مسلم لیڈروں کی قلعی بھی پوری طرح کھل گئی ہے۔ وہ بہت بعد میں سرگرم ہوئے، جب کہ پولیس نےبے گناہوں کو جیل بھیج دیا۔ اب یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے۔ آخر اس کارروائی سے انتظامیہ کیا پیغام دینا چاہتی تھی! کیا وہ ایک طبقہ میں خوف پیدا کرنا چاہتی تھی!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔