سر سید کی پر پوتی نے ماڈل نکاح نامہ کی راہ دکھائی مگر...
شرائط کو مفتی کی موجودگی میں نکاح نامہ میں شامل کیا گیا ۔جس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اسلام میں اس کی گنجائش ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا 2 روزہ اجلاس حیدرآباد میں شروع ہو گیا ہے ۔ اجلاس کے ایجنڈے میں بہت سے موضوعات ہیں اور ان میں ایک اہم موضوع ہے نیا ماڈل نکاح نامہ ۔ جس نئے ماڈل نکاح نامہ پر اجلاس میں گفتگو ہونی ہے اس کی ایک شق ہے کہ طلاق کا طریقہ بھی نکاح کے وقت ہی طے ہو جائے یعنی علیحدگی کی صور ت میں طلاق کس طریقہ سے دی جائے اور اس کے کیا ضوابط ہوں گے ۔اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ کیا اس ماڈل نکاح نامہ میں یہ بھی شامل کیا جائے کہ طلاق کے بعد بچوں کی کفالت اور مطلقہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا جائے یا نہیں ۔
آج کی صورتحال میں ماڈل نکاح نامہ کوئی بڑی بات یا انقلابی قدم جیسا لگ رہا ہو لیکن ان سب باتوں کی ہمیشہ گنجائش رہی ہے ۔ نکاح نامہ بنیادی طور پر لڑکے اور لڑکی کے مابین ایک معاہدہ ہے اور معاہدہ میں اتفاق رائے کے ساتھ دونوں فریق اپنی اپنی شرائط شامل کرا سکتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی پر پوتی شہزادی بیگم نے جب نکاح کیا تو اس میں اپنی مرضی کی کچھ شرائط پیش کیں جو نکاح نامہ میں شامل کی گئیں ۔ یہاں یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ نکاح بھی اس وقت کے جید مفتی نے پڑھایا تھا۔ قومی آواز کو جیسا بتایا گیا ہے سرسید کی پوتی شہزادی بیگم نے آکس فورڈ سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ ایک قابل اور لائق پروفیسر تھیں۔ انہوں نے جب شادی کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی رائے ظاہر کی کہ وہ اپنے ماموں زاد سے شادی کریں گی۔ علیم ویسے تو بہت خوبصورت تھے لیکن تعلیم کے اعتبار سے شہزادی کے مقابلہ کے نہیں تھے۔ ذرائع کے مطابق 1971میں جب ان کی شادی دہلی میں ہوئی تو ان کا نکاح مفتی عتیق الرحمان عثمانی نے پڑھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ عین نکاح کے وقت شہزادی بیگم نے اندر سے ایک پرچہ بھیجا جس میں ان کی کچھ شرائط درج تھیں ۔ اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ان کی زندگی میں ان کے شوہر دوسری شادی نہیں کریں گے، دوسری شرط تھی کہ انہیں یعنی شہزادی بیگم کو اپنے شوہر کے پیسہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ خود کفیل ہیں ، اسی طرح کی کئی شرائط میں سے ایک آخری شرط یہ تھی کہ اگر طلاق کی نوبت آتی ہے تو اس صورت میں دو دو افراد دونوں جانب سے نامزد کئے جائیں گے جو طے کریں گے کہ ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کس کی ہوگی اور وہ کس کے پاس رہیں گے ۔
سر سید کی پوتی کے ذریعہ پیش کی گئیں شرائط کو نکاح نامہ میں مفتی کی موجودگی میں شامل کیا گیا تھا جس سے یہ بات صاف ہے کہ اسلام میں اس کی گنجائش تھی ، لیکن مسلم پرسنل لاء نے وقت رہتے عوام کو اس تعلق سے بیدار نہیں کیا جس کا نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑا۔ اب چونکہ یہ مسئلہ سیاسی بن چکاہے جس کے سبب مسلمانوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Feb 2018, 2:57 PM