’پولس والوں کو نہیں ان کو مارو جنہوں نے ملک کو لوٹا‘ مَلک نے اپنے بیان پر کیا اظہار افسوس
جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کے متنا زعہ بیان پر ہنگامہ مچا ہوا ہے اور اب گورنر نے اپنے بیان پر اظہار افسوس کیا ہے۔
جموں و کشمیر کے گورنرستیہ پال ملک نے ایک تقریب میں ایسا بیان دیا ہے جس نے گونر کے عہدے کے وقار کو مجروح کر دیا ہے لیکن اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور انہوں نے اپنی اس غلطی کا اظہار ایک ٹی وی چینل سے کیا بھی ہے۔ دراصل گورنر نے ایک تقریب میں کہا تھا ’’یہ لڑکے جو بندوق لئے فضول میں اپنے لوگوں کو مار رہے ہیں، پی ایس او، ایس ڈی او کو مارتے ہیں۔ کیوں مار رہے ہیں ان کو؟ انہیں مارو جنہوں نے تمہارا ملک لوٹا ہے جنہوں نے کشمیر کی دولت لوٹی ہے‘‘۔
گورنر ستیہ پال ملک نے اپنے اس متنازعہ بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اے بی پی نیوز سے کہا ہے کہ ’’گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے مجھے ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ میں نے یہ سب غصہ میں کہا تھا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’میرے بیان کے لفظی معنوں پر نہ جائیں، بیان میں جو میرے جذبات ہیں ان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مجھے اپنے بیان پر بہت افسوس ہے‘‘۔
ستیہ پال ملک نے کارگل کے تعلق سے منعقد ایک تقریب میں یہ بات کہی تھی ’’یہ لڑکے جو بندوق لئے فضول میں اپنے لوگوں کو مار رہے ہیں، پی ایس او، ایس ڈی او کو مارتے ہیں۔ کیوں مار رہے ہیں ان کو؟ انہیں مارو جنہوں نے تمہارا ملک لوٹا ہے جنہوں نے کشمیر کی دولت لوٹی ہے۔ کیا ان میں سے کوئی مرا ہے کبھی؟ بندوق اٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایل ٹی ٹی ای بھی کچھ نہیں کر پایا بندوق کے دم پر‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’دہشت گردوں میں ہندوستانی حکومت کی طاقت کو ختم کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ آپ کی جدو جہد بیکار ہے، آپ بیکار میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس وقت 125 غیر ملکی دہشت گردوں سمیت 250 دہشت گرد موجود ہیں، جھڑپوں میں غیر ملکی دہشت گردوں کو مارنے میں دو دن کا وقت درکار ہے جبکہ مقامی دہشت گردوں کو ختم کرنے میں صرف دو گھنٹے کا وقت لگے گا‘‘۔
ستیہ پال ملک کے اس بیان پر جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ’’یہ شخص ایک ذمہ دار عہدے پر بیٹھا ہوا ہے جوکہ ایک آئینی عہدہ ہے۔ دہشت گردوں سے کہہ رہے ہیں کہ بدعنوان رہنماؤں کو مار ڈالو۔ ایسے شخص کو غیر قانونی قتل اور کنگارو عدالتوں کے بارے میں بات کرنے سے قبل پہلے پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے بارے میں دہلی کی کیا رائے ہے‘‘۔ مَلِک کو پہلے تو یہ متنازعہ بیان دینا ہی نہیں چاہیے تھا اور بعد میں اظہار افسوس میں غلطی تسلیم کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس بیان کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ان کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں گورنر کے عہدے پر فائز ہوں اس لئے یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ ایسا بیان کسی کو بھی نہیں دینا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔