مرکزی حکومت چِپ کے ذریعہ آپ کے بیڈروم کی جاسوسی کرے گی!
اسمرتی ایرانی نے TRAI کے پاس ایک تجویز بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی کے ’سیٹ ٹاپ باکس‘ میں چِپ لگائی جائے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس چینل اور کس پروگرام کو ناظرین کتنا وقت دیتے ہیں۔
آپ کیسا محسوس کریں گے جب کوئی یہ نگرانی کرے کہ آپ گھر کی چہار دیواری کے اندر کون سا ٹی وی چینل دیکھ رہے ہیں یا پھر کون سا چینل کتنی دیر تک دیکھتے ہیں۔ یقیناً آپ اسے اپنی پرائیویسی یعنی رازداری کے خلاف عمل قرار دیں گے۔ اور اگر آپ پر یہ نگرانی مرکزی حکومت رکھتی ہے تو پھر آپ اسے کس نظر سے دیکھیں گے۔ جی ہاں! مرکزی حکومت ’سیٹ ٹاپ بکس‘ میں چِپ لگا کر آپ کے ٹی وی پر نظر رکھنا چاہتی ہے اور یہ جانکاری حاصل کرنا چاہتی ہے کہ آپ کون کون سے ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں اور کون سا پروگرام دیکھنا آپ پسند فرماتے ہیں۔
اس سلسلے میں مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات اسمرتی ایرانی نے ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی (TRAI) کے سامنے تجویز پیش کر دی ہے۔ مرکزی وزارت برائے اطلاعات و نشریات کے ایک سینئر افسر کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’اس کا مقصد ہر چینل کے ناظرین کی صحیح تعداد کا ڈاٹا تیار کرنا ہے۔‘‘ دراصل وزارت کا ماننا ہے کہ دوردرشن کے ناظرین کی تعداد بہت کم کر کے دکھائی جاتی ہے اور چِپ لگانے کے بعد ناظرین کی صحیح تعداد پتہ چل پائے گی۔ اس کے علاوہ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ چِپ کے ذریعہ مختلف چینل دیکھنے والے ناظرین کا ڈاٹا معلوم ہو جائے گا تو اشتہار دینے والی سرکاری ایجنسی یعنی ڈی اے وی پی اپنے اشتہارات پرمناسب منصوبہ بندی کے ساتھ خرچ کر سکے گی۔ لیکن یہ سبھی دلائل ناکافی معلوم ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی ٹی وی دیکھنے والا شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اس معاملے میں پرائیویسی ختم ہو۔ یہی سبب ہے کہ ابھی اسمرتی ایرانی کی وزارت نے ٹرائی کو تجویز بھیجی ہی ہے اور مخالفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی اس کے تئیں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اسمرتی ایرانی کے ذریعہ ’سیٹ ٹاپ باکس‘ میں چِپ لگانے کی تجویز ٹرائی کو بھیجنے جانے سے متعلق کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے آج صبح ایک ٹوئٹ بھی کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’بریکنگ! بی جے پی کے ذریعہ جاسوسی کے نئے طریقہ کا پتہ لگ گیا۔ اسمرتی ایرانی جی جاننا چاہتی ہیں کہ آپ بیڈروم کی چہار دیواری کے اندر اپنے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں، اور وہ بھی آپ کی اجازت کے بغیر!‘‘ اس کے بعد انھوں نے ایک سلوگن لکھا ہے جو اس طرح ہے ’’اَب کی بار سرویلنس سرکار، نِجتا کا حق تار تار۔‘‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ریسرچ کر رہے میران حیدر نے مرکزی وزارت برائے اطلاعات و نشریات کے ذریعہ اس طرح کی تجویز ٹرائی کو بھیجنا قابل مذمت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ سرکار فاشزم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ حکومت آزاد خیال آوازوں کو دبانا چاہتی ہے اور ایسے نیوز چینل یا اخبارات کو پسند نہیں کرتی جو ان کے خلاف خبریں شائع کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’سیٹ ٹاپ باکس میں چِپ لگائے جانے کے بعد جو ڈاٹا انھیں ملے گا اس سے وہ ناظرین کا ذہن پڑھ سکیں گے اور پھر ہندوتوا ایجنڈا کو فروغ دینے کے لیے منصوبہ بندی کر سکیں گے۔ وہ دائیں بازو کی تنظیموں کے ایجنڈے کی تشہیر کرنے والے چینلز کو آگے بڑھائیں گے اوران کے خلاف کام کرنے والے چینلوں کو بند کرنے کی مہم چلائیں گے۔‘‘
سہار نپور سے تعلق رکھنے والے صحافی اور ادیب حسن کاشفی بھی ٹی وی چینلوں کا ڈاٹا جمع کرنے اور ناظرین پر نگرانی رکھنے جیسے کسی بھی قدم کو افسوسناک قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ٹرائی کو چاہیے کہ اس طرح کا کوئی بھی قدم نہ اٹھایا جائے جس سے کسی کی پرائیویسی کو خطرہ پہنچے۔‘‘ وہ مرکز کی نریندر مودی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہمارے جینے کے حق کو چھیننے کے مترادف ہوگا اور ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا گیا تو ہم اس کے خلاف سخت احتجاج کریں گے اور اپنے حق کے لیے لڑیں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Apr 2018, 6:21 PM