حکومت مان لے نہیں تو منوا لیں گے، اتر پردیش کے کسانوں کی دھمکی

دہلی سرحد پر بھاریہ کسان یونین کے دھرنے کا منظر / تصویر آس محمد
دہلی سرحد پر بھاریہ کسان یونین کے دھرنے کا منظر / تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

نئی دہلی: شام 6 بجے سردی بڑھ جاتی ہے اور کسان لحاف اوڑھ لیتے ہیں۔ کھلے آسمان کے تلے ٹھنڈ میں سکڑتے ہوئے کسانوں کے اندر گرم لاوا بھبک رہا ہے۔ مظفرنگر کے بھارتیہ کسان یونین کے شہر صدر شاہد عالم لحاف اوڑھے سڑک پر بیٹھے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’یہ گوراو ہے۔ بابا ٹکیت کا پوتا ہے۔ انگریزی اسکول میں پڑھا ہے۔ کمپیوٹر چلاتا ہے مگر یہاں 5 دن سے بیٹھا ہے۔ یہ ہم سے زیادہ پڑھا لکھا ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ حکومت کے بنائے ہوئے قانون کا مطالب کیا ہے!‘‘

گوراو ٹکیت بھارتیہ کسان یونین کے موجودہ صدر نریش ٹکیت کے بیٹے ہیں، نریش ٹکیت بھارتیہ کسان یونین کے بانی اور ایک زمانے میں ملک بھر میں مقبول کسان رہنما مہندر سنگھ ٹکیت کے بڑے بیٹے ہیں۔ نریش کہتے ہیں ’’جب میرا جوان بیٹا یہاں 5 دن سے کھلے آسمان کے تلے بیٹھا ہے اور میں اس کا باپ ہونے کے باوجود یہ سب دیکھ رہا ہوں تو آپ سمجھ لیں کہ یہ لڑائی ہم کسانوں کے لئے کتنی اہم ہے۔ اب حکومت کو سمجھ لینا چاہئے یا تو وہ مان جائے اور ان تینوں زرعی قوانین کو واپس لے لے نہیں تو ہم منوا لیں گے۔

ٹھیٹ مظفرنگر کے انداز میں نریش ٹکیت کہتے ہیں کہ ’ہم جھوٹا (بھینسا) بگی لے کر لال قلعہ جائیں گے اور وہیں کھونٹا گاڑ دیں گے۔‘


بھارتیہ کسان یونین مغربی اتر پردیش کے کسانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور دہلی میں چل رہی پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی تحریک کی حمایت کر رہی ہے۔ دہلی-یوپی بارڈر پر دیر شام میرٹھ کے آئی جی پروین کمار تریپاٹھی پہنچے اور اپنی پرانی واقفیت کی دہائی دے کر بھارتیہ کسان یونین سے راستہ کھولنے کی اپیل کی، لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔

یونین کے زون کے صدر راجو اہلاوت کہتے ہیں، ’’اب بات بہت بڑی ہو چکی ہے اور سوال ہماری بقا کا ہے۔ یہ ہمارے بچوں کی زندگی کا سوال ہے۔ مٹی ہماری ماں ہوتی ہے اور ہم زمین کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم اس زمین پر اڈانی-امبانی کا قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنا حقہ اپنی مروڑ، جب جی میں آیا تو دیا توڑ، والے لوگ ہیں۔ کسی اور کو اپنے سر پر نہیں بیٹھنے دیں گے۔ حکومت ’ایم ایس پی‘ کی یقین دہانی کرائے اور تینووں قوانین کو واپس لے، بس یہی ہمارا مطالبہ ہے۔‘‘


یہاں موجود شاملی کے بھوپندر ملک بھی زرعی قوانین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر ان قوانین کو منسوخ نہیں کیا گیا تو ہم مر جائیں گے۔ ہم اپنے مسائل پر بات کرنا اور سمجھانا چاہتے ہیں لیکن یہ حکومت متکبر ہے، ہماری ایک نہیں سن رہی۔ ہم نے حکومت کے ساتھ میٹنگ کی لیکن حکومت اس قانون کو واضح کرنے میں ناکام رہی۔ یہ کسی بھی طرح ہمارے لئے سود مند نہیں ہے اور ہمارے خلاف ہے۔ اگر حکومت جہاز جیسی مصنوعات کا سودا کرتی ہے تو وہ بچولیوں کے توسط سے کیا جاتا ہے، اسی طرح ہمارے معاملہ میں آڑھتی ہماری فصلوں کو محفوظ رکھنے میں اس وقت تک مدد کرتے ہیں جب تک وہ بک نہیں جاتی۔ کیا انہیں (آڑھتیوں کو) کمانے کا حق نہیں ہے، انہیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟‘‘

مراد نگر کے جتندر کمار کہتے ہیں ’’کسان سڑکوں پر ہیں، ہم یہاں لڑنے کے لئے آئے ہیں اور ہم لڑیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک لمبی لڑائی ہے۔ ہماری تحریک اچانک شروع نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ دو مہینوں سے پنجاب کے کسان تحریک چلا رہے ہیں۔ یہ خالص کسانوں کی تحریک ہے اور کسی نے اسے اسپانسر نہیں کیا۔ کچھ میڈیا چینل جھوٹے الزامات عائد کر کے تحریک کو توڑنے کی کوشش میں ہیں لیکن ان حربوں سے پریشان ہو کر ہم ہار نہیں مانیں گے۔‘‘


دورالہ کے 45 سالہ سوراج سنگھ ایک کسان ہیں لیکن وہ ان دنوں مظاہرین کسانوں کی حفاظت کے لئے گشت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں ہر رات مظاہرین کی حفاظت کے لئے گشت کرتا ہوں۔ میں بھی ایک کسان ہوں اور کسانوں کو کیا تکلیف ہے اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ کسانوں کو کھیتی کا بہت نقصان ہو رہا ہے لیکن یہ قوانین موجود رہیں گے تو کھیتی بالکل تباہ ہو جائے گی، لہذا ہم ان سیاہ قوانین کی واپسی تک گھر واپس نہیں لوٹیں گے۔‘‘

سوراج سنگھ نے کہا، ’’ہم اپنے ضروری کام نمٹا چکے ہیں اور کم از کم 6 مہینے تک تحریک چلانے کے لئے تیار ہیں۔ حکومت اس تحریک کو براڑی کے میدان میں منتقل کر کے اس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش میں ہے، جو ایک دھوکہ ہے۔ ہم شاہراہوں کو جام کر دیں گے اور اپنے حقوق کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کریں گے۔‘‘


بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر اور پور قاضی کے چیئرمین ظہیر فاروقی بھی یوپی بارڈر پر ڈٹٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’کسان صرف کسان ہے، اس کی کوئی ذات برادری نہیں ہوتی۔ ہم یہاں ’کسانیت‘ کے لئے آئے ہیں۔ دہلی کی سرحد پر کسانوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں صرف 600 کسان آئے تھے لیکن اب 6 ہزار سے زیادہ کسان صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اور سردی کے باوجود ہماری تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ اب حکومت بھی سمجھ لے تو بہتر ہے۔ حکومت کو ہر قیمت پر جھکنا ہوگا۔ ہم بابا ٹکیت کے لوگ ہیں دھرنے پر بیٹھ جاتے ہیں تو اٹھائے نہیں اٹھتے!‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔