گوپی چند نارنگ کی شخصیت میں عجیب رنگارنگی اور نغمگی تھی: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی

گوپی چند نارنگ جب محفل سے خطاب کرتے تھے تو ایک ایک لفظ ایسے چن چن کر سامنے رکھتے تھے جو اُن کا ہی کمال تھا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ یو این آئی</p></div>

تصویر بشکریہ یو این آئی

user

یو این آئی

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام جشن ادب 2024 کے آخری دن کل اردو کے ممتاز نقاد، دانشور، محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کی حیات و خدمات پر مبنی یک روزہ قومی سمپوزیم کا انعقاد عمل میں آیا۔  افتتاحی اجلاس میں مہمانِ خصوصی گلزار نے پروفیسر نارنگ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ابھی یقین نہیں ہورہا کہ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اردو کی ہر محفل میں ہماری آنکھیں اُن کی تلاش کرتی رہتی ہیں۔ نارنگ صاحب کی غیرموجودگی ابھی اندر سمائی نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے دور میں اردو کے بہت سے اسکالر ہوئے لیکن مجھے نارنگ صاحب اردو کی پدرانہ شخصیت کے طور پر نظر آتے ہیں۔ جب وہ محفل سے خطاب کرتے تھے تو ایک ایک لفظ ایسے چن چن کر سامنے رکھتے تھے جو اُن کا ہی کمال تھا۔

اُنھوں نے نارنگ صاحب پر لکھی اپنی پورٹریٹ بھی سامعین کے سامنے پیش کیں۔ پروگرام کے آغاز میں اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی، ساتھ ہی انھوں نے نارنگ صاحب سے اپنے ذاتی تعلقات کے بارے میں کہا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اُس میں پروفیسر نارنگ کا بہت اہم رول ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پروفیسر نارنگ کے دورہئ صدارت میں ساہتیہ اکادمی نے ترقی کی بے پناہ منزلیں طے کیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ برسوں بعد ادب میں کوئی لیجنڈ پیدا ہوتا ہے، ہندوستان کی ادبی دنیا میں پروفیسر نارنگ ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر جناب چندربھان خیال نے پروفیسر نارنگ کی ادبی زندگی، اُن کی کتابوں اور انعامات و اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر نارنگ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی شہرت عالمی سطح کی تھی۔ وہ اردو کے سفیر کہے جاتے تھے۔


اس خصوصی پروگرام میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اہلیہ محترمہ منورما نارنگ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کیا۔ مہمانِ اعزازی اردو کے ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اُن کا نارنگ صاحب سے تعلقات پچاس برسوں سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ انھوں نے کہا کہ نارنگ صاحب کی شخصیت کے اندر ایک عجیب رنگارنگی اور نغمگی پائی جاتی تھی جو نغمگی اردو ادب کا حصہ ہے۔ جس زمانے میں لسانیات اور ساختیات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی اُس زمانے میں پروفیسر نارنگ نے لسانیات اور ساختیات پر کام کیا اور بہت اچھی کتابیں لکھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پروفیسر نارنگ صرف اردو ہی نہیں، ہندوستان کی ہر زبان کے ادیبوں کے درمیان مقبول تھے۔ جناب نظام صدیقی، ممتاز اردو نقاد و دانشور، نے اپنا پُرمغز کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں جب نارنگ صاحب سے مصافحہ کرتا تو محسوس ہوتا تھا کہ ہندوستان کی روح سے مصافحہ کر رہا ہوں۔ انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ عہد کو عہد نارنگ سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے صدر جناب مادھو کوشک نے کہا کہ جب کوئی ادیب ’اسکول آف تھاٹ‘ بن جائے تو وہ ایک ادارہ کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ پروفیسر نارنگ کی حیثیت ہندستانی ادب میں ایک ادارے کی ہے۔

افتتاحی اجلاس کے بعد پہلے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ پروفیسر نارنگ نے فکشن تنقید پر جو کام کیا ہے اس کا اثر تادیر قائم رہے گا۔ اُنھوں نے پریم چند کی کہانی ’کفن‘ کے حوالے سے پروفیسر نارنگ کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پروفیسر نارنگ نے ’کفن‘ قارئین کو سمجھایا وہ اُن کی تنقیدی بصیرت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس سیشن میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے مقالے میں کہا کہ ’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ پروفیسر نارنگ کی سب سے اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کے بعد ہی ایک نظریہ ساز کی حیثیت سے اُن کی شخصیت سامنے آتی ہے۔ پروفیسر نارنگ نے مشرقی شعریات کے ساتھ مغربی تنقید کو سمجھنے سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اجلاس میں پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ڈاکٹر احمد صغیر نے پروفیسر نارنگ کی فکشن تنقید کے حوالے سے اپنے مقالے پیش کیے جبکہ ڈاکٹر دانش الٰہ آبادی نے پروفیسر نارنگ کی شخصیت پر بھرپور مقالہ پڑھا۔


دوسرے تکنیکی اجلاس کی صدارت شین کاف نظام نے فرمائی اور کہا کہ ادب کا فلسفے کے حوالے سے فن سے رشتہ پہلی بار پروفیسر نارنگ نے تشکیل دیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر خالد محمود، ڈاکٹر اسد رضا، ڈاکٹر شاہینہ تبسم اور پروفیسر طارق چھتاری نے اپنے مقالے پیش کیے۔ آخری اجلاس کی صدارت جناب شمیم طارق نے فرمائی اور اس اجلاس میں جناب حقانی القاسمی، جناب ف س اعجاز، ڈاکٹر قاسم خورشید اور پروفیسر محمد زماں آزردہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔ پروگرام میں کافی تعداد میں شرکا کی موجودگی رہی۔

ادب کے شائقین کے لیےیہ خبر باعث مسرت ہے کہ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ شش روزہ جشن ادب، جو 11 سے 16 مارچ 2024 تک نئی دہلی میں منعقد کیا گیا، میں 190 سیشن کا انعقاد عمل میں آیا جس میں 175 سے زائد زبانوں کے 1100 سے زیادہ ادیبوں نے شرکت کی،یہ اپنے آپ میں ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ آئنسٹائن ورلڈ ریکارڈز، دُبئی کی ٹیم نے ایک تقریب میں اس ورلڈ ریکارڈ کا سرٹیفیکٹ ساہتیہ اکادمی کے صدر مادھو کوشک، نائب صدر کمد شرما اور سکریٹری ڈاکٹر کے شری نواس راؤ کو سونپا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔