جی ڈی پی@23.9- فیصد: زمیں بوس ہو گئی معیشت، پھر بھی حکومت اور میڈیا کے لیے 'سب ٹھیک ہے'

وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ملک کی ترقی ٹھپ ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ زمیں بوس ہو گئی ہے۔ شرح ترقی نہ صرف اوندھے منھ گری ہے بلکہ اس کی الٹی گنتی سامنے آئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ہر کسی کو معلوم تھا کہ ایسا ہی ہوگا، اور بہت ہی بری خبر کے لیے ہر کوئی تیار بھی تھا۔ بالآخر وہ اعداد و شمار سامنے آ گئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ جی-20 ممالک میں اس وقت ہندوستان کی معیشت سب سے خراب حالت میں پہنچ چکی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی میں 23.9 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ یہ گراوٹ اپریل سے جون کی سہ ماہی میں ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے وزیر مالیات اسے 'ایکٹ آف گاڈ' یعنی اس میں اوپر والے کا ہاتھ بتا دیں، لیکن حکومت کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ دنیا کے سبھی کورونا انفیکشن والے مریضوں میں سے 28 فیصد تنہا ہندوستان میں ہیں۔ مطلب صاف ہے کہ لاک ڈاؤن کورونا کا انفیکشن روکنے میں ناکام رہا اور معیشت کا بھٹّہ بیٹھ گیا۔

پہلے ہی ہو چکا ہے مالی خسارے میں 103.1 فیصد کا اُچھال:

پیر کے روز ہی سنسیکس نے 839 پوائنٹ کا غوطہ کھایا، سرمایہ کاروں کے لاکھوں کروڑ روپے دیکھتے دیکھتے ہوا ہو گئے۔ اسی درمیان بری خبر آ گئی کہ ملک کی معیشت الٹی سمت میں چل پڑی ہے اور اسے واپس صحیح راستے پر آنے کا امکان نہ صرف دھندلا ہے بلکہ دور بھی ہے۔ یعنی اب مرکزی حکومت، ریاستوں کو اس کا جی ایس ٹی بقایہ نہیں دے گی۔ مالی اہداف کو حکومت پہلے ہی لانگھ چکی ہے، اور مالی خسارہ 8.21 لاکھ کروڑ کا ہو گیا ہے جو کہ موجودہ مالی سال کے لیے طے ہدف سے 103.1 فیصد زیادہ ہے۔


ہَوا ہو گیا 20 لاکھ کروڑ کا پیکیج:

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ اعلان کردہ اور وزیر مالیات کے ذریعہ 5 قسطوں میں پیش کردہ مبینہ 20 لاکھ کروڑ کا معاشی پیکیج ہَوا میں اڑ چکا ہے۔ معیشت غرق ہو گئی ہے اور بھلے ہی اگلے تین مہینے میں اس میں کچھ بہتری نظر آئے، کیونکہ لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے، لیکن حکومت کے پاس ایندھن ہی نہیں بچا ہے کہ وہ ملک کی معاشی گاڑی چلا سکے۔ ہو سکتا ہے جی ڈی پی کے اعداد و شمار آنے والے دنوں میں بہتر ہوتے ہوئے نظر آئیں، لیکن آنے والی سہ ماہیوں میں عام شہریوں کی مصیبتیں اور دقتیں بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ اس حادثے کا اثر ہر کسی پر پڑے گا۔

اب بھی اسے 'ایکٹ آف گاڈ' ہی بتائیں گی وزیر مالیات:

اس حادثے کے لیے وزیر مالیات بھگوان کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، ایک طرح سے وہ اس بدنظمی کی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ رہی ہیں۔ سیاسی طور پر وزیر مالیات نرملا سیتارمن کی دلیل اور رخ کو سمجھا جا سکتا ہے، لیکن انھیں یہ تو جواب دینا ہی پڑے گا کہ آخر گزشتہ مالی سال 20-2019 کی چوتھی سہ ماہی میں شرح ترقی گر کر 3.09 فیصد کیوں پہنچی تھی جو گزشتہ 44 سہ ماہیوں کا سب سے ذیلی سطح ہے۔

ہو سکتا ہے کہ حکومت اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح ترقی میں ہوئی گراوٹ کا سبب کورونا کو ہی بتا دے گی، لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک طرف جب حکومت کی آمدنی یعنی خزانہ گر رہا ہے تو سرکاری خرچ میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں یا تو حکومت کو بڑے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا، یا پھر سرکاری خرچ میں زبردست کمی کرنی پڑے گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ حکومت یہ دونوں ہی کام کرے۔ اور ایسے میں مزید ایک بری خبر یہ ہے کہ آر بی آئی کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں بچی ہے کہ وہ حکومت کو کچھ راحت دے سکے۔


اور بھی برے ہو سکتے ہیں آنے والے حالات:

ایسے میں ان اعداد و شمار کو ایک تناظر میں رکھنا اہم ہو جاتا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت نے کل مالی خسارہ کا اندازہ 8 لاکھ کروڑ روپے کا لگایا تھا، لیکن اب یہ بڑھ کر 13 لاکھ کروڑ روپے تک جا سکتا ہے۔ یعنی 5 لاکھ کروڑ روپے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ سرکاری منصوبوں کے لیے کم پیسہ، اور ایسا مرکز کے ساتھ ریاستوں میں بھی ہوگا۔ ایک طرف جب نجی یا ذاتی استعمال گر رہا ہے، ایسے میں حکومت بھی خرچ میں تخفیف کرے گی تو اس سے بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ مختصراً کہیں تو حالات بدتر ہی ہونے والے ہیں۔

حکومت کے بے کار فیصلوں سے ہوئی یہ حالت:

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کورونا بحران کو بہتر طریقے سے سنبھالا جا سکتا تھا؟ جواب ہے ہاں، بشرطیکہ حکومت نے معیشت کو جان بوجھ کر زمیں بوس نہ ہونے دیا ہوتا، کیونکہ اسے پتہ تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ویسے بھی گزشتہ 6 سالوں کے دوران معیشت کی قوت برداشت حکومت کے یکے بعد دیگرے بے کار فیصلوں کے سبب کمزور ہو گئی ہے۔ یہ فیصلے آج بھلے ہی تاریخ ہو گئے ہوں لیکن دلیل یہ ہے کہ کروڑوں ہندوستانی خاندانوں کے پاس خود کو سنبھالنے کے لیے کوئی بچت نہیں رہی ہے۔


اب بھی نہ حکومت خواب غفلت سے بیدار ہو رہی نہ ہی میڈیا

حکومت نے جب ملک میں مکمل لاک ڈاؤن لگایا تو ایک غلط فہمی لوگوں کے ذہن میں ڈال دی کہ حکومت کا کورونا وبا پر کنٹرول ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ حکومت اپنی کھال بچانے کے لیے وقت برباد کر رہی تھی۔ اسے ایک طرح سے سڑک پر لاٹھی پیٹنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور اَن لاک میڈیا کے لیے بڑے جملے ہو سکتے ہیں، لیکن جب ایک دن میں 78761 افراد کورونا پازیٹو پائے جا رہے ہیں تو ایسے میں معیشت کو اَن لاک کیسے کر سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کو پتہ نہیں تھا کہ ایسے حالات میں کیا کچھ کیا جائے۔ اور یہی حالت اب بھی ہے۔

تو اب آگے کیا ہوگا؟ آنے والے مہینوں میں سب سے بڑا بحران جو ہو سکتا ہے، وہ یہ کہ حکومتیں (مرکزی اور ریاستی دونوں) اپنے ملازمین کو تنخواہ ادائیگی کرنے میں پیچھے ہو جائیں گی۔ ریاستوں کا مسئلہ تو بہت بڑا ہے کیونکہ جی ایس ٹی جمع میں کمی مرکزی حکومت سے زیادہ ریاستوں کو متاثر کرتی ہے۔ پی ایم کسان ندھی اور منریگا کی ادائیگی میں تاخیر آنے والے مہینوں میں ایک سنگین مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ زمینی سطح پر کھپت (استعمال) کو متاثر کرے گا۔

این پی اے بڑھنے کا خطرہ:

اس سے بھی بڑا مسئلہ اب سامنے آئے گا، کیونکہ آر بی آئی کا لون موریٹوریم یعنی قرض ادائیگی کی مدت اب ختم ہو رہی ہے اور لوگوں کو اس مدت کے سود پر سود ادا کرنا ہے۔ قرض کو نئے سرے سے طے کرنا ایک متبادل ہے، لیکن اس سے صرف صارفین خرچ میں کمی ہی آئے گی۔ ایسے میں آنے والے دنوں میں این پی اے یعنی ایسے قرض جن کی ادائیگی نہیں ہو پاتی ہے، ان میں زبردست اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں اصلاح کو دھیان میں رکھتے ہوئے مارچ 2021 تک 12.5 سے 15 فیصد کے درمیان ہو۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں یا آپ کے پاس موجودہ معاشی حالت کو لے کر کیا نظریہ ہے، لیکن بے سمت پالیسیوں اور وبا نے معیشت کو زوال پذیر کیا ہے۔ قلیل مدت میں تو ہمارے سامنے مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹنے والا ہے، ہاں طویل مدت میں کچھ بہتری کی امید ہے۔ لیکن جیسا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا، طویل مدت میں ہم سبھی کو ایک دن ختم ہو جانا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔