فہمیدہ ریاض: مظلوموں اور کمزوروں کی بلند و توانا آواز
ہندوستان کے میرٹھ میں آنکھیں کھولنے والی فہمیدہ ریاض نے دنیائے فانی کو الوداع کہہ کر پاکستانی باشندوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں ہندوستانیوں کی آنکھیں بھی نم کر دیں ہیں۔
حقوق نسواں اور مظلوم طبقہ کی بلند و توانا آواز فہمیدہ ریاض ادب میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھیں اور وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہیں۔ 21 نومبر کی شب ان کا انتقال کرنا تھا کہ اردو ادب ہی نہیں، عالمی ادب میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ادبی حلقہ میں پھیل گئی اور تعزیتی پیغامات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا جو ہنوز جاری ہے۔ ہند-پاک کے درمیان رشتوں کو ہمیشہ بہتر بنانے کے لیے کوشاں پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض کافی عرصے سے علیل تھیں اور 28 جولائی 1946 کو ہندوستان کے میرٹھ میں آنکھیں کھولنے والی اس عظیم ہستی نے دنیائے فانی کو الوداع کہہ کر پاکستانی باشندوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں ہندوستانیوں کی آنکھیں بھی نم کر دیں ہیں۔
مشہور ومعروف شاعر گوہر رضا نے ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض کے انتقال کو کئی معنوں میں انسانیت کے لیے بڑا خسارہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’فہمیدہ آپا کا دنیا سے جانا کئی وجہوں سے بڑا خسارہ ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ مشکل حالات میں بھی جتنا کام انھوں نے اردو ادب کے لیےکیا، وہ ان کے اندر موجود ہمت اور کام کے لیے ان کی لگن کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں مظلوموں کے خلاف انھوں نے جس طرح آواز بلند کی اور پاکستان کے خلاف بھی وہ جس طرح کے خیالات رکھتی تھیں، وہ انھیں ایک بے خوف شخصیت بناتی تھی۔ فہمیدہ آپا نے بغیر کمپرومائز کیے پوری بے باکی کے ساتھ اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی، چاہے وہ جنگ کے خلاف خیالات ہوں یا پھر عورت پر ظلم کے خلاف۔‘‘
بے خوف انداز میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب فہمیدہ ریاض کو پاکستان میں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے ہندوستان آ کر اپنی آواز کو خاموش نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے نثر، شاعری اور تقریروں کے ذریعہ اپنی بات لوگوں تک پہنچائی۔ گوہر رضا کہتے ہیں کہ ’’فہمیدہ آپا نے اردو ادب کی روایات کو بھی نبھایا اور نئی روایات پیدا کرنے کی کوشش میں سنگ میل بھی ثابت ہوئیں۔ جس طرح پروین شاکر نے شروعات کی اور دیگر خواتین نے پاکستان میں بے باکی کے ساتھ کام کیا، اس میں فہمیدہ ریاض بھی مشعل راہ کی طرح نظر آئیں۔‘‘ ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے گوہر رضا نے کہا کہ ’’جے این یو میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا اور وہاں کچھ ہنگامہ آرائی ہو گئی تھی۔ ہنگامہ کے درمیان میں نے فہمیدہ آپا کو وہاں سے نکالا اور محفوظ جگہ پر پہنچایا۔ اس واقعہ کے باوجود وہ واپس اسٹیج پر آئیں اور اپنا کلام پڑھا۔ وہ ایک با ہمت خاتون تھیں، ایک بے باک شخصیت تھیں اور انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘‘
شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی جاوید نے فہمیدہ ریاض کے انتقال کو خسارۂ عظیم قرار دیا۔ وہ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ ’’ فہمیدہ ریاض صرف اردو کی شاعرہ نہیں تھیں بلکہ وہ ایک بہت بڑی ہیومن رائٹس اور عالمی امن کی علمبردار تھیں۔‘‘ فہمیدہ ریاض کی جدوجہد اور کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ پاکستان جیسے ملک میں رہتی تھیں جہاں ملٹری و پولس کا دبدبہ قائم ہے۔ ایسی جگہ رہ کر بھی انھوں نے جس طرح کی لڑائی لڑی وہ ناقابل فراموش ہے۔ انھوں نے نسلی سطح پر استحصال کے شکار لوگوں کی آواز بھی مختلف فورم سے اٹھائی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مظلوم طبقہ کی آواز اٹھانے والی عاصمہ جہانگیر کا انتقال پہلےہوا اور اب فہمیدہ ریاض چلی گئیں۔ بے باک طریقے سے اپنی بات کہنے والے لوگ کم ہوتے ہیں اور فہمیدہ ریاض ان میں سے ایک تھیں۔ ہر طرح کی پریشانیاں جھیلنے کے باوجود وہ اپنے مشن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔‘‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اُردو کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد انجم نے بھی اظہارِ تعزیت کی۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’فہمیدہ ریاض ظلم کے خلاف تو آواز اٹھاتی ہی تھیں، حقوق نسواں کے لیے بھی خوب کام کیا۔ وہ استحصال زدہ طبقوں کی ایک بلند اور توانا آواز تھیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ سات آٹھ سال پہلے جب وہ جامعہ تشریف لائی تھیں اور ایک ریسرچ اسکالر سیمینار میں انھوں نے شرکت کی تو طلبا و طالبات کے مقابلے کو بغور سنا اور طالبات کو بعد میں اپنے پاس بلا کر تصویریں کھنچوائیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’’فہمیدہ ریاض صاحبہ ڈیلی رپورٹ پر مبنی کالم لکھتی تھیں اور ایک رپورٹ میں مذکورہ سیمینار کا تذکرہ کرتے ہوئے باضابطہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تعریف کی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ جامعہ میں ریسرچ اسکالر سیمینار بہت معیاری تھا اور یہ اچھی بات ہے کہ یہاں بچے و بچیوں میں تفریق نہیں ہے۔‘‘
شہزاد انجم بات چیت کے دوران فہمیدہ ریاض کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’میری جب فہمیدہ ریاض سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو میں تھوڑا جھجک محسوس کر رہا تھا کیونکہ وہ ایک بڑی ادیبہ تھیں اور بے باک و بے خوف شبیہ رکھتی تھیں۔ لیکن ملاقات کے بعد جب ان کا خلوص دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ شخصی اعتبار سے وہ ایک ملنسار اور محبت کرنی والی خاتون تھیں۔ وہ ظالموں کے لیے غضب ناک تھیں لیکن عام لوگوں کے لیے خوش مزاج اور خوش اخلاق ثابت ہوئیں۔ پہلے قاضی عبدالستار اور اب فہمیدہ ریاض کا دنیا سے جانا افسوسناک ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فہمیدہ ریاض کا انتقال ایک انصاف پسند خاتون کا انتقال اور ادب کا بہت بڑا خسارہ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں اور طالب علمی کے زمانے میں ہی پہلی نظم لکھی جو ’فنون‘ میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا جب کہ دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973 میں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں شائع ہوا۔ انھوں نے اپنی نظموں، غزلوں اور دیگر شعری اصناف کے ساتھ ساتھ فکشن و دیگر نثری اصناف کے ذریعہ بھی سماج و معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور استحصال زدہ طبقہ کی آواز ثابت ہوئیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Nov 2018, 7:09 PM