گاندھی جی کا فلسفہ حیات ہر زمانے اور ملک کے لیے کارگر ہے: پروفیسر عقیل احمد
پروفیسر عقیل احمد نے کہا کہ گاندھی جی کا فلسفہ دراصل فلسفۂ حیات ہے اور یہ کسی ایک ملک یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر زمانے اور ہر ملک کے لیے ہے۔ اس لیے گاندھی جی کی شخصیت عالمگیر ہے۔
نئی دہلی: گاندھی جی کے فلسفہ حیات پر روشنی ڈالتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر شیخ عقیل نے کہا کہ گاندھی جی کے سیاسی و سماجی افکار اور فلسفے کی اہمیت ہر دور میں باقی رہے گی۔ یہ خیال انہوں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام ایک خصوصی لیکچر، ’مہاتما گاندھی کی لسانی اساس کی تلاش: قیامِ افریقہ کے دوران اردو کے متعلق ان کے نظریے کی تشکیل‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ گاندھی جی پوری دنیا کے لیے اخلاقی اور روحانی انقلاب کے پیغمبر تھے لیکن ہمارے ملک کے لیے یوں بہت خاص تھے کہ گاندھی نے ہمارے ثقافتی اور روحانی ورثے کو یکجا کرکے اس کی مدد سے ہندوستان کے ہر فرد کو ایک مثالی انسان بنا کر ہندوستانی تہذیب کو ایک نئی تہذیب میں تبدیل کردیا جو ایک بہت بڑا تہذیبی انقلاب تھا۔ پروفیسر عقیل احمد نے مزید کہا کہ گاندھی جی کا فلسفہ دراصل فلسفۂ حیات ہے اور یہ کسی ایک ملک یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر زمانے اور ہر ملک کے لیے ہے۔ اس لیے گاندھی جی کی شخصیت عالمگیر ہے۔ ان کے فلسفے کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ ان کے فلسفے کو اگر ایک وسیع ڈھانچہ مان لیا جائے تو اس کی بنیاد مذہب ہے اور باقی منزلوں کا تعلق سیاسی، سماجی، معاشی امور سے ہے۔ یہی وجہ کہ وہ عمل و کردار کی پاکیزگی اور وقار و خودداری پر زور دیتے تھے۔
شیخ عقیل نے کہا کہ گاندھی جی کے تمام تر فلسفے پر سچائی کا غلبہ ہے، ان کی تمام زندگی ہی سچائی کی تلاش و تحقیق میں گزری اور ان کی تمام سرگرمیوں کا محور یہی تھا، اسی طرح سیاست کو انھوں نے انسانیت، ملک و قوم کی خدمت کا ذریعہ سمجھا۔ مہاتما گاندھی سیاست کو وقت گزاری کا سامان نہیں سمجھتے تھے بلکہ سیاست کو ایشور کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے تھے اور راشٹر کو ’بھگوان‘ سے تعبیر کرتے تھے۔ ملک کی خدمت کو اپنا فریضہ اول بتاتے تھے، دراصل یہ ہزاروں سالہ ہندوستانی کلچر کا حصہ ہے، جس میں اپنے راشٹر کا ہر ذرہ لائق پرستش ہے اور اس کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہے۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ بابائے قوم نے مختلف مذہبی طبقات پر مشتمل ہندوستانی سماج کو متحد کیا۔ گاندھی جی فرد کی تعمیر و ترقی پر زیادہ زور دیتے تھے۔ انھوں نے سوراج کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ہندوستان کے ہر گاؤں اور دور سرحد پر کھڑے ہر شخص کو انصاف ملے، ہر شخص کو ترقی کرنے کا موقع ملے تاکہ ہر شخص مرکزی دھارے میں شامل ہوکر خود بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار نبھا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی چاہتے تھے کہ ہر فرد اپنے اندر اخلاقی اور روحانی قدرو ں کو بیدار کرے اور ملک کی ترقی میں روحانی قدروں کے ساتھ مادی ترقی بھی کرنے میں اپنارول ادا کرے۔ تبھی ملک کو صحیح معنوں میں ترقی ہوگی۔ وزیراعظم نریندر مودی جی کی نیشنل تعلیمی پالیسی میں گاندھی جی کے اس نظریے کو خاص طور پر اپنایا گیا ہے اور اس میں نئی نسل کو جدید تعلیم کے ساتھ ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے لیس کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور کئی کتابوں کے مصنف انل نوریا نے اپنے خصوصی لیکچر میں قیامِ افریقہ کے دوران گاندھی جی کے اردو سے قائم ہونے والے رشتے اور مرحلہ وار اس میں ہونے والی ترقی پر تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی 1893 میں ایک مسلم موکل کی دعوت پر جنوبی افریقہ گئے تھے اور وہاں جن ہندوستانیوں سے ان کا سابقہ پڑا ان میں انگریزی کے علاوہ گجراتی، ہندی، تمل اور اردو والے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اسی دوران اردو سیکھی اور باضابطہ اردو کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ وہیں رہتے ہوئے انھوں نے ایک اخبار ’انڈین اوپینین‘ نکالا جس کے کچھ صفحات انگریزی کے علاوہ گجراتی، تمل اور اردو میں بھی ہوتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ افریقہ میں مقیم ہندوستانی شہریوں کی ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی، جس کے سرکلر گاندھی جی کی ہدایت پر انگریزی، گجراتی، تمل اور اردو میں بھی جاری کیے جاتے تھے۔ گاندھی جی اپنی انگریزی تحریروں میں بھی اردو اور عربی کے الفاظ استعمال کرتے تھے اور ان کا یہ ماننا تھا کہ اپنی زبان میں مختلف زبانوں کے الفاظ کو شامل کرنا اور انھیں استعمال کرنا چاہیے، اس سے زبانیں ترقی کرتی ہیں۔ انھوں نے قیامِ افریقہ کے دوران متعدد اردو شخصیات جیسے خواجہ الطاف حسین حالی اور معروف سیاست داں بدرالدین طیب جی پر جو مضامین لکھے ان میں حالی کی شاعری اور بدرالدین طیب جی کی دانشوری اور علمیت کے ساتھ خصوصاً ان کی اردو دانی اور اردو خطابت کو قابلِ تحسین قرار دیا۔ اگر ہم زبانوں کے تعلق سے گاندھی جی کے نظریے پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بعد میں ہندوستان میں اردو اور ہندی کو ملاکر جس ہندوستانی زبان کو اپنانے کی وکالت کی، اس کی بنیاد جنوبی افریقہ میں ہی پڑچکی تھی، اس تعلق سے ان کی تحریروں سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ خاصی دلچسپ ہیں۔
آخر میں پروفیسر ابن کنول نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس لیکچر کو غیر معمولی افادیت کا حامل قرار دیا اور اس کے انعقاد پر قومی اردو کونسل کو مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، اسسٹنٹ ڈائرکٹر(اکیڈمک) کے اظہار تشکر پر پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔ اس موقعے پر کونسل کا تمام عملہ موجود رہا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔