گاندھی جی کو گولی ماری گئی کیونکہ وہ ہند-پاک دوستی کی علامت تھے: عرفان حبیب

بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر پروفیسر عرفان حبیب نے مہاتما گاندھی جی کی یاد میں منعقد ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مودی حکومت نے گاندھی جی کو ایک سینیٹری انسپکٹر میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

بھاشا سنگھ

ہندوستان کے معروف تاریخ داں اورمہاتما گاندھی کی ملک تعمیریت پر تحقیق کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گاندھی جی کو ایک سینیٹری انسپکٹر میں تبدیل کر دیا ہے۔ موجودہ دور کی سیاست اور سماجی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’یہ فاشسٹ حکومت ہے اور اس سے ہم تبھی لڑ سکتے ہیں جب ہند-پاک کے درمیان دوستی اور اقلیتوں کی حفاظت کے لیے 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے ذریعہ کیے بھوک ہڑتال کو یاد رکھیں۔ اس سے ترغیب حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘

پروفیسر عرفان حبیب ان خیالات کا اظہار یکم اکتوبر کو دہلی میں مہاتما گاندھی کی 150 سالہ جینتی پر سماجی ادارہ ’سہمت‘ کے ذریعہ منعقد ایک سمینار میں کر رہے تھے۔ انھوں نے تقریب میں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’گاندھی جی ہند-پاک کی دوستی کی علامت تھے، اسی کے لیے انھوں نے اپنی جان دی۔ گاندھی جی کو گولی ہی اس لیے ماری گئی کیونکہ وہ دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی چاہتے تھے۔ آج اس ملک میں پاکستان کے خلاف کی گئی سرجیکل اسٹرائیک کا سبق اسکول و کالجوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ بے حد شرمناک ہے۔‘‘

عرفان حبیب نے آر ایس ایس-ہندو مہاسبھا اور بی جے پی کو گاندھی کا قتل کرنے والی سوچ کا حامی بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے قتل کے بعد جب اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس کے گولولکر کو خط لکھ کر جواب مانگا تھا، تب گولولکر نے اپنے جواب میں گاندھی جی کے قتل پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ عرفان حبیب نے کہا کہ ’’نفرت والی ان کی سوچ تب بھی تھی اور آج بھی ہے۔ آج جس طرح سے چاروں طرف نفرت پھیلائی جا رہی ہے، مذہبی زہر پھیلایا جا رہا ہے وہ خوفناک ہے۔ تیزی سے ہندوستان کو پاکستان بننے کی جانب ڈھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان جہاں پہنچا ہے وہیں ہندوستان بھی پہنچ رہا ہے۔ جیسی نفرت پاکستان میں احمدیہ طبقہ کے خلاف پھیلائی گئی ویسی ہی نفرت ہندوستان مین مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے۔‘‘

مہاتما گاندھی پر اپنے مقالہ میں پروفیسر حبیب نے گاندھی کے نظریاتی سفر کو ’ہند سوراج‘ سے لے کر ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کے درمیان دریافت کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب گاندھی نے شروعاتی دور میں ہند سوراج کی بنیاد رکھی تھی تو وہ بہت پرانے دور کے ملک کا تصور تھا اور اس کے بعد مختلف تحریکوں اور انقلابوں کے ذریعہ ان کی سوچ میں دھیرے دھیرے تبدیلی آئی اور ملک کے تصور میں جدید رجحانات کا دخل ہوا۔ مسلمانوں اور دلتوں کے ایشوز پر ان کی وسیع سوچ قائم ہوئی۔ یہ بی جے پی یا آر ایس ایس کے ملک کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔

آئندہ لوک سبھا انتخابات اور ہندوستانی جمہوریت پر منڈلاتے خطرات کے بارے میں پروفیسر حبیب نے کہا کہ بہت بڑا نظریہ اور سب کو ساتھ لینے والے جذبے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سال 2019 ہمارے شعور اور ہمارے عزم مصمم کا امتحان لے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ 30 جنوری کو ہم نئے سرے سے دریافت کریں کیونکہ یہ دن گاندھی کے امن اور بھائی چارے کے لیے قربانی کی شکل میں یاد کرنا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Oct 2018, 10:06 PM