آرٹیکل 370 سے یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ تک، آئیے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے 10 اہم فیصلوں پر ڈالیں نظر

سپریم کورٹ نے شہریت قانون کی دفعہ 6اے کو درست قرار دیا تھا۔ اس سیکشن کے تحت 1966 سے 1971 کے درمیان بنگلہ دیش (سابق ​​مشرقی پاکستان) سے آسام میں آئے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دی جاتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ / آئی اے این ایس</p></div>

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ 10 نومبر 2024 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان کے بعد سنجیو کھنہ اگلے چیف جسٹس آف انڈیا کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ ڈی وائی چندرچوڑ نے جمعہ یعنی 8 نومبر کو سپریم کورٹ میں کچھ اہم معاملوں کی سماعت کی اور وہ دن ان کے میعاد کا آخری ورکنگ ڈے تھا۔ آخری دن بھی انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق ایک اہم مقدمہ میں 7 ججوں کی ایک بنچ کی سربراہی کی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے 2 سالہ میعاد میں کئی ایک اہم فیصلہ سنائے۔ آئیے ان میں سے 10 اہم فیصلوں پر سرسری نظر ڈالتے ہیں اور ان کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1. الیکٹورل بانڈ پر لگائی روک:

حالیہ اختتام پذیر پارلیمانی انتخابات سے کچھ وقت قبل فروری 2024 میں چیف جسٹس کی قیادت میں 5 ججوں کی آئینی بنچ نے سیاسی جماعتوں کو عطیات کے لئے استعمال کیے جا رہے الیکٹرول بانڈ اسکیم پر روک لگا دی تھی۔ الیکٹورل بانڈ کا استعمال 2018 سے کیا جا رہا تھا، اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ’’یہ اسکیم غیر قانونی ہے اور اس سے سیاسی جماعتوں اور عطیات فراہم کرنے والوں کے درمیان ملی بھگت کو فروغ مل سکتا ہے۔‘‘


2. حکومتیں نجی جائیداد نہیں لے سکتیں:

رواں ماہ کی 5 تاریخ (5/11/2024) کو چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت میں 9 ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے ایک انتہائی اہم فیصلہ دیا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ حکومت کے پاس سبھی نجی جائیدادوں کو حاصل کرنے اور ان کو پھر سے دوبارہ تقسیم کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ معاملہ گزشتہ 32 سالوں زیر التوا تھا اور آئینی بنچ نے 7:2 سے اپنا فیصلہ سنایا۔

3. یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ:

5 نومبر 2024 کو ہی سی جے آئی کی قیادت والی آئینی بنچ نے یوپی مدردسہ بورڈ ایکٹ 2004 کو آئینی قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کے کچھ دفعات کو چھوڑ کر اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کی آئینی جواز کو باقی رکھا۔ اس سے قبل الہ باد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 22 مارچ کو اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی مدرسوں میں پڑھنے والے سبھی طلباء کو جنرل اسکولوں میں داخل کرنے کے احکام صادر کیے تھے۔ اس فیصلے سے یوپی کے ہزاروں مدارس میں زیر تعلیم 17 لاکھ سے زائد طلباء کے مستقبل پر اثر پڑے گا۔


4. آرٹیکل 370 پر فیصلہ:

دسمبر 2023 میں، چیف جسٹس کی قیادت میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ جموں و کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے کے لئے آرٹیکل 370 ایک عارضی انتظام تھا۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا تھا کہ دو مرکز کے زیر انتظام خطوں میں منقسم جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ جتنا جلد ممکن ہو سکے بحال کیا جانا چاہیے۔ جموں و کشمیر میں 30 ستمبر 2024 سے پہلے انتخابات کرانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے حکومت کو جموں و کشمیر میں نئی ​​پالیسیاں نافذ کرنے میں مدد ملی اور وہاں انتخابات بھی کرائے گئے۔

5. ہم جنس پرستوں کی شادی قابل قبول نہیں:

چیف جسٹس کی قیادت میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے گزشتہ سال اکتوبر میں ہم جنس پرستوں کی شادی پر ایک اہم فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے 17 اکتوبر 2023 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے ہم جنس پرستوں کو بچے گود لینے کا حق دیا۔ ساتھ ہی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہم جنس پرستوں کے لیے مناسب قدم اٹھانے کے احکامات بھی صادر کیے گئے۔ اس فیصلے کے بعد ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو حکومت کے پاس پناہ لینی پڑے گا۔


6. سیکشن 6اے کو درست تسلیم کیا:

راوں سال اکتوبر (اکتوبر 2024) میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے شہریت قانون کی دفعہ 6اے کو درست قرار دیا تھا۔ اس سیکشن کے تحت 1966 سے 1971 کے درمیان بنگلہ دیش (سابق ​​مشرقی پاکستان) سے آسام میں آئے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس دفعہ کو برقرار رکھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بنگلہ دیش سے آئے مہاجرین کو قانونی تحفظ اور شہریت کا حق مل گیا۔

7. جیل میں ذات پات کی تفریق پر پابندی:

ہندوستانی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر قیدیوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر سپریم کورٹ نے 3 اکتوبر 2024 کو روک لگا دی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر کام کی تقسیم کو غیر قانونی قرار دیا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 10 ریاستوں کے جیل مینوئل میں شامل ایسے قوانین کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ سبھی لوگ برابر پیدا ہوتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اگر جیل رجسٹر میں کہیں بھی قیدیوں کی ذات کا کالم ہے تو اسے مٹا دیا جائے۔ اس سے جیلوں میں قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی رکے گی۔


8. نیٹ-یو جی کو منسوخ کرنے سے انکار:

جولائی 2024 میں اپنے فیصلے میں پیپر لیک کے الزامات سے گھرے نیٹ۔یوجی 2024 کو منسوخ کرنے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا تھا۔ میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے ہوئے امتحان کو منسوخ کرنے کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس کی قیادت میں بنچ نے کہا تھا کہ پیپر لیک اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہوا ہے کہ اس سے امتحان کی شفافیت متاثر ہو۔ اس لیے سپریم کورٹ نے دوبارہ جانچ کا حکم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں طلباء کو دوبارہ امتحان کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑا۔ لیکن ٹاپر طلباء کو دوبارہ امتحان دینے کا اختیار ضرور دیا گیا تھا۔

9. اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کو بھی جانا ہوگا جیل:

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بنچ نے مارچ میں فیصلہ دیا کہ ووٹ کے بدلے رشوت لینے یا مقننہ میں تقریر کرنے کے بدلے رشوت لینے کے ملزم رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی کو جیل جانے سے چھوٹ نہیں دی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 105 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رشوت خوری سے کسی کو کوئی چھوٹ نہیں ہے۔


10. کم عمری کی شادی پر دیا اہم فیصلہ:

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کم عمری کی شادی پر اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے بچوں کی شادی سے متعلق خصوصی ہدایات جاری کر کے کہا ہے کہ ’چائلڈ میرج پریوینشن ایکٹ‘ کو کسی بھی نجی قانون کے تحت روایت سے روکا نہیں جا سکتا۔ ایک این جی او نے اپنی عرضی میں الزام لگایا تھا کہ ریاستوں میں پروہبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس پر اپنے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ والدین کے ذریعہ اپنی نابالغ بیٹیوں اور بیٹوں کی بلوغت کے بعد شادی کرانے کے لیے منگنی کرنا بھی شریک حیات منتخب کرنے کی ان کی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے روایات کے نام پر بچوں کی شادی پر روک لگ سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔