مجاہد آزادیِ بیرسٹر محمد آصف علی...یوم وفات کے موقع پر خصوصی پیشکش

آصف علی ملک و قوم کی خاطر دار و رسن کی آزمائشوں سے گزرتے رہے مگر پائے استقامت میں جنبش نہ آئی، ان کا شمار ان انقلابیوں میں ہوتا ہے جن کا نام گاندھی جی، پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کے بعد لیا جاتا ہے

مجاہد آزادی آصف علی
مجاہد آزادی آصف علی
user

شاہد صدیقی علیگ

آصف علی کی گنتی ہندوستان کے ان عظیم انقلابیوں میں ہوتی ہے، جن کا نام مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال اور مولانا آزاد کے بعد لیا جاتا ہے۔ ان کے علمی ذہانت کا ذکر پنڈت جواہر لال نہرو نے تلاش ہند کے پیش لفظ میں خصوصی طور پر کیا ہے۔ آصف علی ملک و قوم کی خاطر دار و رسن کی آزمائشوں سے گزرتے رہے مگر پائے استقامت میں کبھی جنبش نہ آئی۔ آصف علی کا انتقال یکم اپریل 1953 کو برن، سوئٹزرلینڈ میں ہندوستان کے سفیر کے طور پر ہوا تھا۔

آصف علی کا تعلیمی سفر ماڈل پرائمری اسکول سے اینگلو عربک اسکول ہوتا ہوا سینٹ اسٹیفن کالج پہنچا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1909 میں انگلستان روانہ ہوئے۔ جنوری 1912 میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فرانس، سوئٹزلینڈ، یونان، روم، ترکی اور مصر کی سیر کرتے ہوئے ہندوستان لوٹ آئے۔ آصف علی نے جلد ہی و کالت شروع کر دی اور کچھ ہی عرصے میں ایک کامیاب وکیل کی حیثیت سے شناخت قائم کر لی۔


آصف علی چونکہ صحافت، ادب اور سیاست سے گہرا شغف رکھتے تھے، لہٰذا وہ ایسے مقدمے لیتے جن کا معاوضہ نسبتاً معقول ہوتا۔ اسی دوران آصف علی کو ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلہ میں لندن جانے کا موقع ملا لیکن جب وہ 5 جنوری 1915 کو وطن واپس لوٹے تو ان کے آبائی شہر پر سیاسی سناٹا طاری تھا اور انہوں نے اس مہر سکوت کو توڑنے کا کام کیا۔ انہوں نے ستمبر 1916 کو اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ چاندنی چوک میں دریبہ کے نکڑ پر ہوم رول لیگ کی ایک شاخ قائم کی۔ دسمبر 1917 میں آصف علی نے کلکتہ کے آل انڈیا کانگریس کے سالانہ اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی۔

جون 1919 میں آصف علی کو لکشمی نارائن دھرم شالہ باغ دیوار فتح پوری میں ہوم رول لیگ کے سالانہ جلسہ سے خطاب کرنے کی پاداش میں حراست میں لے لیا گیا لیکن بذات خود آصف علی اپنے مختار اور وکیل تھے۔ اس یادگار مقدمے میں انہوں نے بڑی ذہانت سے مدافعت کی جس کے نتیجے میں ان کو باعزت رہا کر دیا گیا۔ 1919 میں انڈین نیشنل کانگریس کا اجلاس منعقد کرایا۔ دلی کانگریس کا اجلاس عام آصف علی کی تنظیمی اور جماعتی صلاحتیوں کا مظہر تھا۔


گاندھی جی نے 7 مارچ 1919 کو ایک ستیہ گرہ سبھا قائم کی جو سوامی شردھا نند، ڈاکٹر انصاری، آصف علی، حسرت موہانی اور دیگر پر مشتمل تھیں۔ آصف علی نے اپنے رضاکاروں کے ساتھ دلی کے گلی کوچے اور منڈیوں میں بدیشی مال کے خلاف مظاہرے کیے۔اگست 1920 میں عدم تعاون تحریک کے پیش نظر انہوں نے وکالت چھوڑ دی اور دسمبر 1921 میں آصف علی نے اپنے 52 ساتھیوں کے ہمراہ گرفتاری پیش کی۔ بعد ازیں جامع مسجد کوچ کی پاداش میں انہیں گرفتار کرلیا گیا اور ڈیڑھ سال کی سزائے قید دیتے ہوئے انہیں پنجاب کی میاں والی جیل میں رکھا گیا۔ قید فرنگ سے وہ 11 جون 1923 کو وہ آزاد ہوئے۔

آصف علی کو 1930 میں شہری نافرمانی تحریک میں گرفتار کر لیا گیا اور چھ ماہ کی سزائے قید سنائی گئی، جنوری 1932 میں انگلستان سے واپس آنے کے بعد وائسرائے ولنگڈن کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں کانگریسی لیڈران کی گرفتاری عمل میں آئی جس کی مخالفت میں دلی میں اجلاس عام منعقد ہوا۔ اس کی پاداش میں آصف علی کو دو ماہ کی قید ہوئی لیکن جیل سے چھوٹنے کے بعد پھرحراست میں لیے گئے اور ایک سال کی سزا ہوئی۔


دریں اثنا وہ 1935 میں مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے ممبر کی حیثیت سے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں منتخب ہوئے۔ آصف علی 1940 میں گاندھی جی کے انفرادی ستیہ گرہ میں شریک ہونے والے پہلے رضاکاروں میں سے ایک تھے۔ انہیں ہندوستان چھوڑو تحریک 1942 کے دوران بمبئی کے گوالیا ٹینک میدان میں انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا لہرانے کے لیے بڑے پیمانے پر یاد کیا جاتا ہے۔ مذکورہ تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں آصف علی کو چار سال کی جیل ہوئی۔ آصف علی نے بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کا مقدمہ بھی لڑا۔ سال 1946 کی عارضی حکومت میں آصف علی ریلوے اور ٹرانسپورٹ کے وزیر، واشنگٹن میں غیر منقسم ہندوستان کے پہلے سفیر، اڑیسہ میں گورنر اور آخر میں سوئٹزرلینڈ میں سفیر بنائے گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔